ایف اے ٹی ایف کی لٹکتی تلوار

Last Updated On 23 June,2019 03:56 pm

لاہور: (تجزیہ: امتیاز گل) اکتوبر سے پہلے تک پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف )کے اورلینڈو، فلوریڈا میں ہونیوالے اجلاس کے بعد جاری ایک بیان میں اس 27نکاتی ایکشن پلان پر عمل درآمد کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا جن پر ایک سال قبل پیرس میں اتفاق ہوا تھا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق اس میں جنوری اور مئی کی ڈیڈ لائنز کی بھی نشاندہی کی گئی جنہیں پورا کرنے میں پاکستان ناکام رہا تھا۔ بیان میں پاکستان پر زور دیا گیا کہ اکتوبر 2019تک ایکشن پرمکمل عمل درآمد یقینی بنائے۔

گزشتہ سال پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرانے میں برطانیہ، امریکہ ، فرانس اور بھارت پیش پیش تھے۔ نئی دہلی جوکہ اس وقت ایف اے ٹی ایف ایشیا پیسفک گروپ کا شریک چیئرمین ہے، پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے کیلئے پورا زور لگا رہا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ بھارت کتنا زور لگا رہا ہے، ایک بات بڑی واضح ہے کہ پاکستان کو اپنے مفاد میں 27 اقدامات مکمل کرنے کیلئے بھرپور محنت کرنی چاہیے، ان میں ستمبر کے آخر تک کرنیوالے درج ذیل اقدامات شامل ہیں:

1۔ اس بات کا مظاہرہ ہو کہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے ہر قسم کی دہشت گرد فنانسنگ کی نشاندہی اور تحقیقات کر رہے ہیں (جیسے کہ فنڈز کی داخلی اور علاقائی نقل و حرکت ، وصولی یا استعمال)۔ اس میں خاص فوکس دہشت گرد فنانسنگ کے اہم پہلوؤں پر کرنا چاہیے جس میں کیش سمگلنگ، رقوم کی غیر قانونی منتقلی ، منشیات کی سمگلنگ، این جی اوز کا ناجائز استعمال، قدرتی وسائل سمیت سمگلنگ سے حاصل رقوم اور دہشت گرد گروپوں کو فنڈنگ شامل ہیں۔

2۔ اس بات کا مظاہرہ ہو کہ دہشت گرد فنانسنگ کی تحقیقات اور عدالتی کارروائی کا ہدف نامزد افراد اور ادارے ہیں، اور وہ افراد اور ادارے ہیں جوکہ نامزد افراد یا اداروں کی طرف سے یا ان کی ہدایت پر کام کرتے ہیں۔

3۔ اس بات کا مظاہرہ ہو کہ دہشت گرد فنانسنگ کے مقدمات کے نتائج سزا پانیوالے افراد اور اداروں کے خلاف متناسب اور موثر پابندیوں کی صورت میں برآمد ہو رہے ہیں۔

4۔ اس بات کا مظاہرہ ہو کہ نگرانوں کی کارروائیوں (اینٹی منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گرد فنانسنگ)کی تعمیل مالیاتی ادارے پوری ذمہ داری کیساتھ کر رہے ہیں۔

5۔ اس بات کا مظاہرہ ہو کہ کرنسی کی سرحد پار نقل و حرکت اور تمام داخلی راستوں سے ہنڈی میں لین دین کنٹرول کیا جا رہا ہے، غلط بیانی کی صورت میں ایسی کارروائی ہو جوکہ موثر اور متناسب حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہو۔

6۔ اس بات کا مظاہرہ ہو کہ تمام داخلی راستوں پر سٹیٹ بینک کے کرنسی ریگولیشنز کے نفاذ اور مانیٹرنگ کیلئے مربوط ڈیٹا بیس بروئے کار لایا جا رہا ہے۔
نجات کا راستہ: ستمبر 2019 تک پاکستان دہشت گرد فنانسنگ کی نشاندہی اور تحقیقات سے متعلق بنیادی خدشات دور کرے جس میں فنڈز کی وصولی، نقل و حرکت، استعمال ، کیش سمگلنگ، منشیات کی سمگلنگ، این جی اوز کا غلط استعمال، کے علاوہ القاعدہ، داعش، جماعۃ الادعوۃ ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، لشکر طیبہ، جیش محمد، حقانی گروپ اور طالبان سے وابستہ افراد کو فنڈنگ سمیت تمام سرگرمیاں شامل ہیں۔

مجموعی طور پر ایف اے ٹی ایف چاہتا ہے کہ ستمبر 2019 تک پاکستان خطرہ کی تشخیص کی بنیاد پر گائیڈ لائنز دے جوکہ بتاتی ہوں کہ پاکستانی مالیاتی ادارے نامزد افراد اور اداروں کے خلاف فوری کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مالیات، معیشت اور سکیورٹی کے ممتاز ماہرین جن میں ڈاکٹر شعیب سڈل، احسان غنی، جنرل اعجاز اعوان، ثاقب شیرانی ، ایڈووکیٹ سرور خان کے علاوہ انسداد دہشت گردی اور سکیورٹی امور سے وابستہ کچھ اہم سرکاری افسر شامل ہیں، انہوں نے اس سلسلے میں ٹھوس اور معتبر لائحہ عمل کیلئے کچھ مشورے دئیے ہیں۔

پاکستان ایف اے ٹی ایف کے ریڈار سے کیسے گزر سکتا ہے ، اس حوالے سے ایک آزاد اور منظم تھنک ٹینک ریسرچ اور سکیورٹی سٹڈیز کے گول میز اجلاس میں درج ذیل عملی اقدامات، پالیسی سفارشات مرتب کی ہیں، جو سیاسی اور تکنیکی لحاظ سے ایف اے ٹی ایف کے چیلنجوں سے بچنے میں پاکستان کیلئے معاون ثابت ہو سکتی ہیں:

1۔ بامقصد تعاون، بہتر رپورٹنگ ، معیاری تحقیقات اور موثر عدالتی کارروائی کیلئے نیکٹا کے بجائے ایف آئی اے کو مرکزی ادارہ بنایا جائے۔

2۔ منی لانڈرنگ پر نیشنل ٹاسک فورس کو اینٹی منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گرد فنانسنگ کا ایکشن پلان تیار کرنے کی ذمہ داری دی جائے۔

3۔ منی لانڈرنگ، دہشت گرد فنانسنگ، ہنڈی /حوالہ ، کرنسی سمگلنگ اور کرنسی کی غیر قانونی نقل و حرکت کی روک تھام کیلئے سٹیٹ بینک کے موجودہ ریگولیٹری ڈھانچے کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے اس کی خامیاں فوری دور کی جائیں۔

4۔ قومی رسک تعین 2018 کے مطابق منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے حوالے سے سنگین خطرے والے شعبوں کیلئے رسک میٹریکس تیار کی جائے۔
5۔ ہنگامی منصوبہ بندی ضروری ہے اور گرے لسٹ کے تسلسل یا بلیک لسٹ میں شامل کئے جانے کے امکان کے پیش نظر ہمیں مطلوبہ تیاریاں کر لینی چاہئیں۔

6۔ منی لانڈرنگ کے میگا کیسز کی تحقیقات اور تفتیش کاروں، پراسیکیوٹرز اور ججوں کی صلاحیتوں میں اضافے کی خاطر فورم، ہم آہنگی اور پیشہ ورانہ طورطریقوں کے فروغ کیلئے ایف آئی اے میں AMLA ڈائریکٹوریٹ قائم کی جائے۔

7۔ انسدادی دہشتگردی ایکٹ 1997 کی تمام شقوں پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

8۔ متعلقہ حکام کے درمیان تعاون بڑھانے کیلئے تین ڈیلی گروپ قائم کئے جائیں؛ خارجہ ، خزانہ ، داخلہ اور قانون کی وزارتوں پر مشتمل لا اینڈ پالیسی گروپ؛ سٹیٹ بینک ، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن پاکستان اور نیکٹا پر مشتمل ریگولیٹری گروپ؛ ایف آئی اے ، ایف بی آر، نیب، اینٹی نارکوٹکس فورس، سی ٹی ڈی، قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر مشتمل انفورسمنٹ گروپ۔ نیب صرف چند اہم کیسز پر فوکس کرے اور انہیں منطقی انجام تک پہنچائے۔

9۔ کالعدم تنظیموں کیلئے الگ فوکل /مانیٹرنگ گروپ تشکیل دیا جائے جوکہ ان کی سرگرمیوں اور قوانین کی خلاف ورزیوں پر مسلسل نظر رکھے۔

10۔دیگر ملکوں کیساتھ باہمی قانونی معاونت کے میکانزم کو مضبوط اور بہتر بنایا جائے اور اس حوالے سے دوسرے ممالک کے تعاون کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

 

Advertisement