اے پی سی: کیا حکومت کیخلاف تحریک کا فیصلہ ہو پائے گا ؟

Last Updated On 26 June,2019 10:52 pm

لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) آج کی آل پارٹیز کانفرنس میں کیمروں کا رخ مریم اور بلاول کی طرف ہوگا فضل الرحمن نے جن مقاصد کیلئے یہ میلہ سجایا ہے وہ شاید پورا نہ ہو سکے، اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ملکی، سیاسی و معاشی صورتحال پر غور و خوض اور مشترکہ لائحہ عمل کی تیاری کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد میں ہونے جا رہا ہے جس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی، جمعیت علمائے اسلام سمیت متعدد جماعتوں کے قائدین اور ذمہ داران شریک ہوں گے۔

اے پی سی کا انعقاد جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی تحریک پر ہو رہا ہے وہی اس کے منتظم اور میزبان ہیں۔ ملکی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ معاشی حوالے سے دگرگوں کیفیت میں ہونے والی اے پی سی کیا مسائل زدہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کا باعث بن سکے گی اور کیا منتخب حکومت کے خلاف کسی واضح لائحہ عمل سمیت احتجاج یا تحریک کا فیصلہ ہو پائے گا۔ یہی سوال اہم ہے اور اس سوال کا واضح جواب خود اے پی سی میں شریک ہونے والے اہم رہنما اور ان کی جماعتوں کے رہنما بھی دینے کی پوزیشن میں نہیں۔

آل پارٹیز کانفرنس 2018ء کے انتخابات کے فوری بعد اسلام آباد میں ہوئی تھی جس میں مولانا فضل الرحمن کا مقصد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو انتخابی عمل میں مبینہ دھاندلی کی بنیاد پر منتخب ایوانوں میں بیٹھنے سے روکنا تھا مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے بہت سے تحفظات اور شکایات کے باوجود ایوانوں کا حصہ بننے کا اعلان کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے مقاصد میں ناکامی کے باوجود عمران خان کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا سلسلہ شروع کیا۔ لیکن انہیں اس میں خاطر خواہ کامیابی نہ ملی۔

لہٰذا اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا یہ جماعتیں حکومت سے براہ راست نجات کیلئے عوامی طاقت کے استعمال پر تیار ہوں گی تو ان جماعتوں کے سنجیدہ عناصر کا خیال ہے کہ اے پی سی کی اہمیت و حیثیت اپنی جگہ لیکن ابھی حکومت کو گرانے کیلئے کسی فیصلہ کن تحریک یا اقدام کا وقت نہیں آیا البتہ معاشی صورتحال کو جواز بناتے ہوئے اپوزیشن اراکین ایوانوں کے باہر احتجاجی مظاہرہ اور سیاسی لیڈر شپ مختلف شہروں میں احتجاجی جلسے کرنے کا اعلان کر سکتی ہے۔ آج کی آل پارٹیز کانفرنس میں دونوں جماعتوں کی سینئر لیڈر شپ کی موجودگی میں میڈیا کی ترجیح اور کیمروں کا رخ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی طرف ہوگا اور مولانا فضل الرحمن نے جن مقاصد کیلئے یہ سارا میلہ سجایا ہے وہ شاید پورا نہ ہو سکے کیونکہ وہ حکومت سے نجات کیلئے اسلام آباد بند کرنا چاہتے ہیں اور انہیں شاید یہ معلوم نہیں لاک ڈاؤن صرف خواہشات سے ممکن نہیں ہوتا اور اس کیلئے سازگار فضاء بنانا پڑتی ہے اور اتنے بڑے فیصلے کا اختیار کسی ایک فرد یا جماعت کا نہیں۔

فضل الرحمن یہ اکیلے نہیں کر سکتے اور اہم سوال یہی ہوگا کہ فضل الرحمن جو عمران خان کی حکومت کو چند لمحوں کیلئے بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں، انہیں یہ سارا سیاسی میلہ لگانے اور سجانے سے کیا ملے گا۔ یہی اہم سوال ہے اور انہیں قریب سے جاننے والے اب بھی یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ‘‘مولانا گھاٹے کا سودا کرنے پر تیار نہیں’’ لہٰذا اس سوال کے جواب کیلئے آئندہ 24 گھنٹے اہم ہیں۔