لاہور: (تجزیہ : سلمان غنی) قومی سلامتی کے ذمہ دار سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے معاشی استحکام کے بغیر خود مختاری کے تصور کو بے معنی قرار دینے کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ فوج جیسے قومی ادارے نے ملکی معیشت کے استحکام میں اپنے کردار کیلئے سالانہ دفاعی بجٹ میں اضافہ قبول نہیں کیا اور اب فوج کے سربراہ یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ملک مشکل معاشی صورتحال سے دو چار ہے، ماضی میں مشکل فیصلے نہ کرنے سے مشکلات بڑھیں۔
آرمی چیف کا خطاب ایک جانب معاشی صورتحال پر تشویش کا عکاس ہے تو دوسری جانب یہ ایک تحریک اور ولولہ پیدا کرنے کا عمل ہے کہ مل جل کر اپنا اپنا کردار ادا کیا جائے تو بحران کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر ملک اس نہج کو کیونکر پہنچا ؟ حکومتوں نے اپنی ذمہ داری پوری کیوں نہیں کی ؟ اور ملک میں معیشت کو استحکام دینے کے بجائے اس کو قرضوں کی معیشت کیونکر بنایا ؟ آرمی چیف جب قومی اہمیت کے معاملات پر تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان بات چیت کو ضروری قرار دیتے ہیں تو بنیادی ذمہ داری حکومت پر آتی ہے کہ وہ معیشت جیسے سنجیدہ ایشو پر اپوزیشن کو ٹارگٹ کرنے اور اپوزیشن حکومت کو نا اہل قرار دیکر اسے بے نقاب کرنے کے عمل کے بجائے کچھ نکات پر اتفاق کریں اور آگے بڑھیں۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں میثاق معیشت کی بات کر کے گیند حکومت کی کورٹ میں پھینکا لیکن انہیں مثبت جواب نہ ملا اور پھر حکومت نے ملک کو اس نہج پر پہنچانے کا ذمہ دار ماضی کی دو حکومتوں کو قرار دیا۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث تاجر، صنعتکار اور سرمایہ کار تینوں پریشان نظر آ رہے ہیں۔ یقیناً یہ مشکل فیصلے ہیں جو حکومت کو کرنا ہیں لیکن اگر سب کو اعتماد میں لیکر پیش رفت ہوتی تو یہ کیفیت نہ ہوتی۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ حکمران بے عملی ترک کریں وزیراعظم ، ان کی کابینہ کے اراکین، اپوزیشن خصوصاً دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطہ کر کے ملک کو در پیش گھمبیر صورتحال پر اپنی مجبوریاں ان کے سامنے رکھیں اور مل جل کر ایسی حکمت عملی ترتیب دیں کہ ملک کی سسکتی معیشت کو سنبھالا مل سکے۔
قومی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں اور ان کے قائدین معیشت کی زبوں حالی پر حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے آگے بڑھ کر اپنا دست تعاون حکومت کو پیش کریں ورنہ ملکی حالات پر حکومت یا اپوزیشن دونوں خود کو نتائج سے بری الذمہ نہیں کر پائیں گے۔ حقیقت یہی ہے کہ ماضی میں حکومتوں کی مجرمانہ غفلت، عیاشیوں اور وسائل کے ضیاع نے ملکی خزانے کو کنگال کیا۔ صورتحال اس نہج پر پہنچی نظر آ رہی ہے کہ جس کا کچھ عرصہ پہلے تک تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ حکمران خواہ کچھ بھی کہیں حقیقت یہی ہے کہ اس صورتحال نے ہر پاکستانی کو متاثر کیا ہے اس کے نتیجہ میں مہنگائی کا طوفان آیا ہے اور اس کی شرح ایک سال میں 3.8 فیصد سے سات فیصد پر آ پہنچی ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت نے اس سونامی کے آگے بند باندھ لئے اور پاکستانی روپے کی ناقدری روکنے کیلئے کوئی موثر اقدام کیوں نہیں کیا۔ ماضی میں اس طرح کا وار ڈالر حملہ ترکی پر ہوا مگر دنیا نے دیکھا کہ پوری ترک قوم نے اپنے صدر طیب اردوان کی قیادت میں متحد ہو کر اس حملہ کا موثر جواب دیا اور ڈالر اور اس کے سرپرستوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ صورتحال سے نکلنے کا راستہ اس کے سوا کچھ نہیں جو خود قومی سپہ سالار نے تجویز کیا ہے کہ سب اس صورتحال کے تدارک کیلئے اپنا اپنا فرض ادا کریں۔ مل بیٹھ کر بحران کا حل تلاش کریں، اپنی اپنی ذمہ داری ادا کریں کیونکہ اگر پاکستان اور پاکستانی معیشت مستحکم نہیں ہوتی تو اس کے مضر اثرات ملکی معیشت پر ہی نہیں بلکہ معاشرے کے عام طبقات، اداروں پر پڑیں گے پاکستان خدانخواستہ اندرونی طور پر کمزور ہوتا ہے تو بیرونی محاذ پر ہمارے لئے خطرات پیدا ہوں گے۔
دنیا کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ خطرات سے نمٹنے کا دارومدار قوموں کے جذبے سے ہوتا ہے اور اگر قومیں اپنی سلامتی، بقا کیلئے قربانی دینے کو تیار ہوں تو دشمن کے عزائم پورے نہیں ہوتے، آج پاکستان کو اندرونی طور پر مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور اس مضبوطی کا دارومدار معاشی استحکام سے ہے۔ مسلح افواج نے اگر معاشی مضبوطی کیلئے دفاعی اخراجات میں اضافہ قبول نہیں کیا تو یہ امر اور عمل دیگر اداروں اور خود حکومت کیلئے بھی مشعل راہ ہے یہ وقت سیاست کا نہیں ملکی بقا و سلامتی اور استحکام کیلئے مل جل کر سوچنے اور قربانی دینے کا ہے ، لہٰذا دیکھنا ہوگا کہ آرمی چیف نے جس معاشی خود مختاری کی بات کی ہے اس پر ہمارے اہل سیاست اور قومی قیادت کس طرح عمل پیرا ہوتی ہے۔