لاہور: (دنیا کامران خان کیساتھ) اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے سنسنی خیز مگر متنازعہ وڈیو اعتراف پر اعلیٰ عدلیہ میں اسی انداز سے اعلیٰ ترین سطح پر مشاورت شروع ہو گئی ہے جو اس واقعہ کا تقاضا ہے، یہ حالیہ تاریخ میں عدلیہ کے کسی بھی جج کے حوالے سے انتہائی سنسنی خیز سکینڈل ہے، چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ عدلیہ کے وقار سے متعلق اس اہم معاملے کی خود معلومات جمع کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے ملاقات کی ہے ملاقات تقریباً 40 منٹ جاری رہی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ 8 جولائی سے موسم گرما کی تعطیلات پر ہیں اور یکم اگست سے وہ دوبارہ اپنا منصب سنبھالیں گے۔
میزبان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ تھم نہیں رہا، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اسی سنسنی خیز انکشاف کو دہرایا ہے اور کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اس کا از خود نوٹس لے، ان کے پاس مزید ٹیپس اور شواہد موجود ہیں، اس واقعہ کے بعد آج ایک اور پیش رفت سامنے آئی ہے، مریم نواز کو 19 جولائی کو دوسری نیب عدالت میں طلب کیا گیا ہے، یقیناً ایک ہلچل کا ماحول ہے۔ عدلیہ میں آج سارا دن اس حوالے سے کیا ہوتا رہا۔
اس بارے میں قانون اور عدالتی امور کے سینئر صحافی حسنات ملک نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شاید یہ واحد معاملہ ہے جس میں اپوزیشن، حکومت اور بار،تینوں کا موقف ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اس حوالے سے ایکشن لے اور تحقیقات کا حکم دے۔ آج کل سپریم کورٹ میں چیف جسٹس اور دو سینئر جج صاحبان جسٹس گلزار اور جسٹس عظمت سعید کا بینچ کیسز کی سماعت کر رہا ہے باقی جج صاحبان موسم گرما کی چھٹیوں پر ہیں یا مختلف رجسٹریوں میں کام کر رہے ہیں اس وقت تینوں سینئر ترین ججز اسلام آباد میں ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جو ملاقات کی اس حوالے سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی جج ارشد ملک کے حوالے سے کوئی آرڈر جاری نہیں کیا۔
انہوں نے کہا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا اپنا ایک سٹائل ہے، چیف جسٹس سیکریسی برقرار رکھتے ہیں۔ پتہ چلا ہے کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو اپنی طرف سے شکایت کی ہے کہ ن لیگ مہم چلا کر ان کو بدنام کر رہی ہے تا ہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس پر کیا کارروائی کی۔ وہ منظر عام پر نہیں آئی۔ اس سلسلے میں سینئروکلا کا موقف ہے کہ اس کیس کی مانیٹرنگ سپریم کورٹ کر رہی تھی اس لئے سپریم کورٹ اس واقعہ کا نوٹس لے، مسلم لیگ ن بھی یہی چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اسلام آباد ہائیکورٹ ایکشن لے لے تو بھی معاملہ ختم نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ کو نوٹس لینا پڑے گا لیکن لگ رہا ہے کہ چیف جسٹس نے گزشتہ 6 ماہ میں ایک بھی از خود نوٹس نہیں لیا۔ایک دو معاملات میں کچھ اداروں سے صرف رپورٹ منگوائی ہے، اس بارے میں حکومت اور ریاست پاکستان کا کیا موقف ہے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ویڈیو کے معاملے میں جج صاحب کی تذلیل ہوئی، اس معاملے کو جوڈیشل پراسیس میں آنا چاہئے، اگر یہ معاملہ جوڈیشل پراسیس میں نہ آئے گا تو اس کا عدلیہ پر بہت زیادہ اثر پڑے گا، ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد بہت دباؤ ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے واضح کر دیا ہے کہ اس معاملے میں حکومت سامنے نہیں آئے گی کیونکہ جن کے درمیان میں یہ ایشوز ہیں، وہی یہ بات طے کرسکتے ہیں کہ کسی چیز کو تحویل میں لینا چاہئے یا نہیں لینا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سپروائزری کورٹ ہے بلکہ احتساب عدالت کے فیصلے پر اپیل بھی اسی کورٹ میں ہوتی ہے، یعنی اپیلٹ کورٹ بھی ہے، ن لیگ کی جانب سے جو اپیل فائل کی ہوئی ہے، اس میں شواہد دے سکتے ہیں، اس پر عدالت عالیہ یہ دیکھ کر بتا سکتی ہے کہ اس دستاویز پر جو فیصلہ دیا گیا ہے وہ درست تھا یا غلط، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انتظامی طور پر عدالت میں ایک درخواست دی جاسکتی ہے، انھوں نے بتایا کہ جب سے موجودہ چیف جسٹس آئے ہیں 184 (3) کے تحت کارروائیاں بہت کم ہوگئی ہیں۔ چیف جسٹس کا اپنا ایک نقطہ نظر ہے کہ کن چیزوں کو لینا چاہئے اور کن کو نہیں لینا چاہئے۔ چیف جسٹس نے حال ہی میں ایک فیصلہ بھی دیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ معاملہ عدلیہ کی ساکھ پر بہت اثر انداز ہو رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کیس کے بہت سے پہلو ہوسکتے ہیں، ری ٹرائل بھی ہوسکتا ہے مگر یہ غور کریں کہ احتساب عدالت کے اندر جو شواہد ریکارڈ ہوئے ہیں جو فیصلہ دیا گیا ہے صحیح یا غلط کی بات نہیں کر رہا۔ وہ شہادت اور فیصلہ اپیل میں تمام دستاویزات کے ساتھ موجود ہے ظاہر ہے اپیلٹ کورٹ اس کا بھی جائزہ لے گی اور اس نتیجہ پر پہنچ سکتی ہے کہ فیصلہ ہونا کیا چاہئے تھا اور کیا ہوا ہے ؟ اگر صحیح ہوا ہے تو عدالت کہہ سکتی ہے فیصلہ صحیح ہوا ہے، اگر کسی طور پر زور یا زبردستی بھی تھی یا دباؤ تھا یہ سب چیزیں اپیلٹ عدالت دیکھ سکتی ہے۔ یہ سب معاملات ہائیکورٹ طے کرسکتی ہے جس کے پاس اپیل زیر التوا ہے۔