لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) سینیٹ میں اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کے طور پر حاصل بزنجو کی نامزدگی اور وزیراعظم عمران خان کی جانب سے موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کی یقین دہانی ظاہر کر رہی ہے کہ باوجود اپوزیشن کی سینیٹ میں واضح اکثریت کے اپ سیٹ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا جس کیلئے غیر اعلانیہ سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ یقیناً اس عدم اعتماد کے اثرات قومی سیاست پر ہوں گے جس کیلئے دونوں جانب سے صف بندی شروع ہے۔
مذکورہ عدم اعتماد کے حوالے سے دلچسپ امر یہ ہے کہ اپوزیشن کا امیدوار بھی اسی بلوچستان سے تعلق رکھتا ہے جس سے موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی کا تعلق ہے دونوں شخصیات میں ایک دلچسپ تضاد یہ ہے کہ موجودہ چیئرمین سینیٹ کو پاکستان کے طاقتور طبقات کے انتہائی قریب سمجھا جاتا ہے، جبکہ میر حاصل بزنجو اپنے خیالات اور سیاست کے باعث سویلین بالادستی کی سیاست کی وجہ سے خاص شہرت رکھتے ہیں یوں اس وجہ سے یہ میچ خاصا کانٹے کا ہوگا۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ پڑے گا کہ اپوزیشن واضح برتری قائم رکھ پائے گی۔
سینیٹر حاصل بزنجو کا بطور امیدوار انتخاب کیونکر کیا گیا۔ پیپلز پارٹی اپنے بنائے ہوئے چیئر مین سینیٹ کو ٹارگٹ کرنے کیلئے کیونکر تیار ہوئی اگر چیئر مین سینیٹ کی تبدیلی ممکن ہوتی ہے تو پھر اسکے قومی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے کیونکہ اسلام آباد میں حکومتوں کے توڑ جوڑ پر گہری نظر رکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن آج کی صورتحال میں چیئرمین سینیٹ کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر عدم اعتماد کا یہ سلسلہ قومی اسمبلی تک دراز ہوگا اور خطرے کی گھنٹی خود وزیراعظم عمران خان کیلئے بھی بجتی نظر آئے گی اور موجودہ حکومت خود اپنے اتحادیوں کی اسیر بن کر رہ جائے گی اور ملک میں محاذ آرائی، تناؤ مزید بڑھے گا۔ موجودہ چیئرمین کے معاملے کو لیکر دیکھا جائے تو بظاہر تحریک عدم اعتماد کے پیچھے اپوزیشن کا برتری کا اعتماد ہے۔ جو مبینہ یکطرفہ احتسابی عمل اور قومی اسمبلی میں پروڈکشن آرڈرز کے معاملے پر خاصی ڈسٹرب ہو چکی ہے اور جوابی وار کے طور پر اپنی طاقت کا میدان اس نے سینیٹ میں تبدیلی کیلئے چنا ہے۔
یہ در حقیقت ان قوتوں کے خلاف کھلا اعلان جنگ ہے جو موجودہ حکومت اور احتسابی عمل کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اپوزیشن کے پاس نمبرز تو پورے ہیں مگر اس کی اصل الجھن خفیہ رائے شماری ہے۔ چونکہ سینیٹ کے اس ایوان میں بظاہر انتخابی حلقہ جاتی سیاست کے لوگ نہیں ہوتے اور انہیں اپنی سیاسی وفاداری ثابت کرنے کا کوئی عوامی دباؤ بھی نہیں ہوتا ۔ اس طرح فورم پر خفیہ رائے شماری میں اپنے ضمیر کو بیچنا یا پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ موجودہ حکومت کی اپروچ کو دیکھا جائے تو وہ کوئی بھی غیر جمہوری طریقہ استعمال کرتے ہوئے نہ ڈرے گی نہ جھکے گی۔ اور یہی طریقہ صادق سنجرانی کے منتخب کرتے ہوئے بھی استعمال ہوا تھا۔ حالانکہ اس وقت نواز لیگ کی حکومت تھی اور وہ اکثریتی جماعت بھی تھی ، مگر حکومت وقت کو سیاسی شرمندگی اور سبکی اٹھانا پڑی تھی۔ اب چونکہ عمران حکومت مقتدر اداروں کیساتھ سیم پیج پر کھڑی ہے تو سمجھدار اراکین سینیٹ کیلئے خفیہ رائے شماری میں قبلہ بدلنے میں نہایت آسانی ہوگی۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اراکین کا جائزہ لیا جائے تو ن لیگ کے اراکین پر بھی بظاہر ضمیر بدلنے کیلئے غیر محسوس دباؤ ضرور ہوگا۔ مگر بیلٹ کے نتائج ثابت کرینگے کہ کس نے کتنا کھویا اور کتنا پایا۔ دوسری جانب وزیراعظم کی صادق سنجرانی سے ملاقات میں نہ گھبرانے کا مشورہ ان کے اصل عزائم کا پتہ دے رہا ہے۔ مگر ہم جانتے ہیں انہوں نے عوام کو بھی نہ گھبرانے کے مشورے دے کر کس طرح ان کیلئے حالات انتہائی تنگ اور سخت کر دیئے تو وزیراعظم کے اس ریکارڈ کو ذہن میں رکھ کر صادق سنجرانی اپنے متعلق کوئی فیصلہ خود کر لیں۔ وزیراعظم چونکہ خود کرکٹ ہیرو رہے ہیں اور آزادانہ کھیل کھیلنے کا فلسفہ دہراتے رہتے ہیں اور نیوٹرل امپائروں کا ذکر کرتے رہتے ہیں تو سینیٹ کا میدان ان کیلئے سامنے پڑا ہے اور پوری قوم کی نگاہ ان پر مرکوز ہے۔