جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ: ترجمان اسلام آباد ہائیکورٹ

Last Updated On 12 July,2019 04:50 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) ترجمان اسلام آباد ہائیکورٹ کے مطابق جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔

 قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت قانون کو خط لکھ دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت قانون کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ جج ارشد ملک کی خدمات واپس لی جائیں، وزارت قانون نئے جج کی تقرری کا فیصلہ کرے گی، جج ارشد ملک وزارت قانون کے ماتحت ہیں۔

 ترجمان ہائیکورٹ کے مطابق ہائیکورٹ براہ راست جج ارشد ملک کیخلاف انکوائری نہیں کرسکتی، جج کی تقرری اور ہٹانے کیلئے چیف جسٹس ہائیکورٹ کی مشاورت ضروری ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ جج ارشد ملک کو واپس وزارت قانون بھیج رہی ہے، انکوائری ہائیکورٹ نے کرنی ہے یا وزارت نے ؟ فیصلہ وزارت قانون کریگا۔

اس سے قبل جج ارشد ملک نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو خط لکھ کر ویڈیو الزامات مسترد کئے۔ جج ارشد ملک نے جاری پریس ریلیز بھی خط کے ساتھ ارسال کی۔ ان کی جانب دستاویزات بھی جمع کرائی گئیں۔ جج ارشد ملک نے اپنے خط میں موقف اپنایا کہ ویڈیو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، مجھے بدنام کیا جا رہا ہے۔

 دوسری جانب جج احتساب عدالت ارشد ملک کے بیان حلفی کی کاپی دنیا نیوز کو موصول ہوگئی جس میں کہا گیا کہ فروری 2018 میں مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ سے ملاقات ہوئی، ملاقات میری بطور جج احتساب عدالت تعیناتی کے کچھ عرصے بعد ہوئی، ناصر جنجوعہ نے بتایا کہ انھوں نے سفارش کر کے مجھے جج لگوایا، ناصر جنجوعہ نے اپنے ساتھ موجود شخص سے تصدیق کرائی کہ میں نے چند ہفتے قبل تعیناتی کی خبر نہیں دی، میں نے اس دعوے کے بارے میں زیادہ سوچ بچار نہیں کی۔

جج ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں مزید کہا کہ 16 سال پہلے ملتان کی ایک ویڈیو مجھے دکھائی گئی، ویڈیو کے بعد کہا گیا وارن کرتے ہیں تعاون کریں، ویڈیو دکھانے کے بعد دھمکی دی گئی اور وہاں سے سلسلہ شروع ہوا، سماعت کے دوران ان کی ٹون دھمکی آمیز ہوگئی، مجھے رائے ونڈ بھی لے جایا گیا اور نواز شریف سے ملاقات کرائی گئی، نواز شریف نے کہا جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس پر تعاون کریں، نواز شریف نے کہا ہم آپ کو مالا مال کر دیں گے۔

بیان حلفی میں کہا گیا کہ ناصر بٹ اور ایک مزید کریکٹر مجھ سے مسلسل رابطے میں رہا، فیملی کو بھی بتایا شدید دباؤ میں ہوں اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں، فیصلے کے بعد بھی مجھے دھمکیاں دی گئیں اور کہا گیا تعاون کریں، کہا گیا آپ ہمارے بتائے ہوئے جملے دے دیں ورنہ ویڈیو لیک کر دینگے، نواز شریف نے براہ راست جاتی امرا میں ہر طرح کی آفرز اور تعاون مانگا، عمرہ کرنے گیا تو ان کے لوگ وہاں پہلے سے موجود تھے، عمرے کے دوران حسین نواز سے ملاقات کرائی گئی، حسین نواز نے کہا یہاں یا کسی اور ملک میں سیٹ کرا دیں گے۔

جج ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں کہا سعودی عرب میں حسین نواز نے 25 اور پھر 50 کروڑ کی آفر کی، حسین نواز نے کہا سعودی عرب سے پاکستان جانے کی ضرورت نہیں، حسین نواز نے کہا آپ یہاں یا کسی اور ملک جانا چاہتے ہیں دستاویزات بنا دینگے، ملتان کی ایک نجی محفل کی 16 سال پرانی ویڈیو معلوم نہیں کیسے حاصل کی گئی، ویڈیو لیک کرنے کی دھمکیاں دی جاتی رہیں اور کہا گیا تعاون کریں، سماعت کے دوران نواز شریف، ناصر بٹ اور دیگر نے دباؤ میں رکھا۔

بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے کہا نواز شریف نے بھی جاتی امرا میں پیسوں کی آفر کی اور کہا تعاون کریں، ناصر بٹ کیساتھ ملاقات میں خفیہ ریکارڈنگز کی جاتی رہیں، ناصربٹ کیساتھ دیگر لوگ بھی ہوتے تھے جو دھمکیاں دیتے تھے، کہا جاتا تھا 4،5 قتل کرچکے ہیں مزید بھی قتل کرسکتے تھے، بچوں سے متعلق بھی دھمکیاں دی جاتی تھیں، ابھی بھی مجھے بلیک میل اور دھمکیاں دیتے ہیں۔