اسلام آباد: (دنیا نیوز) سابق حکمران سیر وتفریح کے لئے کہاں کہاں گئے؟ کتنا پیسہ خرچ کیا، وزیراعظم نے تفصیلات مانگ لیں، رقم وصول کرنے کا حکم دیدیا۔ کابینہ اجلاس میں ڈیلی میل کی خبر کے بعد کے حالات پر بھی تفصیلی غور کیا گیا۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سابق سربراہان مملکت کے کیمپ آفسز، سیکیورٹی اور بیرونی دوروں پر سرکاری اخراجات کی تفصیلات پیش کی گئیں، جن کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے کیمپ آفس اور بیرون ملک میڈیکل اخراجات کی مد میں 4 ارب 31 کروڑ 83 لاکھ روپے سرکاری خزانے سے خرچ کیے جبکہ سابق صدر آصف زرداری نے 3 ارب 16 کروڑ 41 لاکھ خرچ کیے۔
دستاویزات کے مطابق سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے سرکاری خزانے سے 8 ارب 72 کروڑ 69 لاکھ خرچ کیے جبکہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے دور حکومت میں 35 کروڑ، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 24 کروڑ، راجا پرویز اشرف نے بطور وزیراعظم 32 کروڑ اور سابق صدر ممنون حسین نے 30 کروڑ روپے سرکاری خزانے سے خرچ کیے۔
کابینہ اجلاس کے بعد پریس بریفنگ کے دوران وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا کہ عمران خان اپنی بنی گالہ رہائشگاہ کا خرچ خود اٹھاتے ہیں، انہوں نے گھر تک سڑک اپنے پیسوں سے بنوائی، وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے کیمپ آفسز تو دور کی بات ہے کسی وزیر کا بھی کوئی کیمپ آفس نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق سندھ اور جنوبی پنجاب میں سب سے زیادہ غربت ہے۔ سپریم کورٹ میں جمع رپورٹ کے مطابق تھر میں ہر سال 500 بچے بھوک سے مرتے ہیں۔ نواز شریف کی سیکیورٹی پر 4 ارب 31 کروڑ سے زائد آصف زرداری کی سیکیورٹی پر 316 کروڑ 41 لاکھ 18 ہزار روپے سے زائد، شہباز شریف پر 872 کروڑ 79 لاکھ 59 ہزار روپے جبکہ یوسف رضا گیلانی نے 24 کروڑ سے زائد خرچ کیے گئے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ 2017ء میں سیکیورٹی کے نام پر آصف زرداری کے پاس 164 گاڑیاں تھیں۔ یوسف رضا گیلانی کے لاہور میں 3 جبکہ ملتان میں 2 کیمپ آفس تھے۔ شہباز شریف کے پاس 5 کیمپ آفسز تھے۔ نواز شریف کا 2015ء میں امریکا کے دورے پر خرچہ 4 لاکھ ڈالر سے زائد تھا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان قطر جاتے ہیں تو پاکستان اور پاکستانیوں کی بات کرتے ہیں اور یہ قطر صرف قطری خط لینے جاتے تھے۔ شہباز شریف نے 556 مرتبہ نواز شریف کا جہاز استعمال کیا۔
کابینہ نے اسلام آباد میں پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ توصیف ایچ فاروق کو چیئرمین نیپرا تعینات کرنے اور ثقافت ڈویژن کو وزارت اطلاعات سے واپس لے کر وازارت تعلیم کو منتقل کرنے کی منظوری دی گئی جبکہ سرکاری عمارتوں کے مستقبل سے متعلق ایجنڈہ موخر کر دیا گیا۔