عالمی عدالت میں پاکستان کی فتح،کلبھوشن دہشتگرد قرار،جاسوس بھی ثابت

Last Updated On 18 July,2019 12:35 pm

دی ہیگ: (دنیا نیوز) بھارت کو ایک مرتبہ پھر منہ کی کھانا پڑی ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے انڈین جاسوس اور دہشتگرد کلبھوشن یادیو کی رہائی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ وہ پاکستان کی تحویل میں رہے گا.

بھارت نے اپنے جاسوس کلبھوشن یادیو کی بریت کیلئے درخواست دائر کر رکھی تھی۔ پاکستان کی جانب سے اس اہم مقدمے کی پیروی خاور قریشی نے کی۔ عالمی عدالت نے کلبھوشن کیس پر فیصلہ 21 فروری 2019ء کو محفوظ کیا تھا۔

تفصیلی فیصلہ پڑھیے

 

عالمی عدالت انصاف کے پندرہ رکنی بنچ کے سربراہ جج عبدالقوی احمد یوسف نے انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کے کیس کا فیصلہ سنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ مقدمے کی تفصیلی شقوں کی طرف نہیں جانا چاہتے۔ پاکستان اور بھارت ویانا کنونشن کے رکن ہیں، بھارت نے ویانا کنونشن کے تحت کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی مانگی جبکہ پاکستان نے بھارتی موقف پر اپنے تین اعتراضات پیش کیے۔

 

عالمی عدالت انصاف کے جج عبدالقوی احمد یوسف نے فیصلے میں کہا کہ پاکستان کا موقف تھا کہ کلبھوشن یادیو نے ملک میں جاسوسی اور دہشتگردی کی جبکہ جعلی نام پر پاسپورٹ کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوتا رہا۔ پاکستان کا موقف تھا کہ انڈیا کلبھوشن یادیو کی شہریت کا ثبوت دینے میں ناکام رہا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کلبھوشن یادیو ایک بھارتی شہری ہے، اسے پاکستان اور بھارت نے کلبھوشن یادیو کو انڈین شہری تسلیم کیا تھا۔ پاکستان کا موقف تھا کہ جاسوس اور دہشتگرد کو قونصلر رسائی نہیں دی جا سکتی، اس کیس میں ویانا کنونشن کا اطلاق نہیں ہوتا۔

عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کی سزا ختم کرکے رہا کرنے کی بھارتی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس پر پاکستان میں مقدمہ چلنا ویانا کنونشن کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

عدالت نے بروقت گرفتاری کی اطلاع نہ کرنے کا بھارتی الزام بھی یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو گرفتار کرنے کے بعد اس کی بروقت اطلاع انڈین حکام کو دی، تاخیر سے آگاہ کرنے کا بھارتی الزام غلط ہے۔ 25 مارچ 2016 کو پاکستان نے انڈین ہائی کمیشن کو طلب کر کے احتجاج کیا جسے ویانا کنونشن کے تحت مطلع کرنا مانا جا سکتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ بھارت نے دیگر انٹرنیشنل قوانین کی مبینہ خلاف ورزی ضرور کی، تاہم پھر بھی پاکستان سے کہتے ہیں کہ بھارت کو کلبھوشن یادیو تک قونصلر تک رسائی دے۔ کلبھوشن کو سزائے موت نہ دینے، بریت اور بھارت کو واپسی کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔

عالمی عدالت نے انڈین جاسوس کو حوالے کرنے کی بھارتی استدعا سختی سے مسترد کر دی اور قرار دیا کہ دہشت گرد کو بھارت کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔

آئی سی جے نے کلبھوشن پر دہشت گردی کے الزامات ختم کرنے سے بھی انکار کر دیا اور فیصلے میں کہا کہ پاکستان کے پاس بھارتی جاسوس کی گرفتاری کی ٹھوس اور ناقابل تردید وجوہات موجود تھیں۔

 

فیصلے میں تسلیم کیا گیا کہ کلبھوشن کے پاس حسین مبارک پٹیل کے نام پر بھارتی پاسپورٹ تھا جس پر وہ بار بار پاکستان آیا۔ عدالت نے معمولی ریلیف دیتے ہوئے بھارت کو کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی کی اجازت دے دی۔

 

انڈین نیوی کے حاضر سروس افسر کمانڈر، خفیہ ادارے را کے جاسوس اور پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث کلبھوشن یادیو کے کیس میں کب اور کیا کچھ ہوتا رہا؟ آئیے اس کی تفصیلات جانتے ہیں۔

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کب عمل میں آئی؟

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو 3 مارچ 2016ء کو پاکستانی حساس اداروں نے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے گرفتار کیا جب وہ ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا، اس موقع پر اس سے ایک جعلی پاسپورٹ بھی برآمد ہوا جس میں اس کا نام مبارک حسین پٹیل درج تھا۔

بھارت اپنے جاسوس کے جعلی پاسپورٹ سے متعلق وضاحت دینے میں ناکام رہا تھا۔ برطانوی فرانزک ایجنسی نے پاسپورٹ بھارت کی ملکیت ہونے کی تصدیق کی تھی۔

حکومت پاکستان نے بھارتی سفیر کو طلب کرکے انڈین جاسوس کے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخلے اور کراچی اور بلوچستان میں دہشتگردی میں ملوث ہونے پر باضابطہ احتجاج کیا اور کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ویڈیو بھی جاری کی۔

کلبھوشن یادیو کا پاکستانی حکام کے سامنے دہشتگردی کا اعتراف

پاکستانی حکام کو ریکارڈ کرائے گئے اپنے اعترافی بیان میں کلبھوشن یادیو کا کہنا تھا کہ اس نے 1987ء میں انڈیا کی نیشنل ڈیفنس اکیڈمی اور 1991ء میں بھارتی نیوی میں شمولیت اختیار کی، جہاں اس نے دسمبر 2001ء تک فرائض انجام دیے۔

انڈین پارلیمنٹ حملے کے بعد اس نے بھارت میں انفارمیشن اینڈ انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے اپنی خدمات دینے کا آغاز کیا اور اسے بھارتی خفیہ سروس ریسرچ اینڈ انلاسز ونگ (را) میں تعینات کر دیا گیا۔

انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کا پاکستان میں دہشتگردی کا اعتراف

انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو نے پاکستان میں ہونے والی دہشتگرد کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے کراچی اور بلوچستان میں کئی تخریبی کارروائیوں میں اہم کردار ادا کیا۔ اس نے اعتراف کیا تھا کہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی متعدد کارروائیوں کے پیچھے انڈیا کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی  را  کا ہاتھ ہے۔

اپنے ویڈیو بیان میں کلبھوشن یادیو نے جاسوس ہونے کی تصدیق کی اور کہا تھا کہ وہ   را   افسر ہے اور جوائنٹ سیکریٹری انیل کمار گپتا کے ماتحت کام کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ ’’میرا مقصد بلوچ باغیوں کے ساتھ مسلسل میٹنگ کرنا تھا اور انہی کے اشتراک سے میں کارروائیاں کرتا تھا۔ ان کارروائیوں کا مقصد پاکستان کے شہریوں کو نقصان پہنچانا اور انہیں ہلاک کرنا تھا‘‘۔

کلبھوشن نے کہا کہ جیسے ہی مجھے پتا چلا کہ میرے انٹیلی جنس آپریشنز ناکام ہو چکے ہیں اور میں پاکستان کی حراست میں آ چکا ہوں تو میں نے اپنی شناخت ظاہر کر دی۔

اس نے کہا کہ پاکستانی حکام نے مجھے بہت اچھے طریقے سے ڈیل کیا اور ایک اچھے اور پیشہ ورانہ انداز میں مجھ سے سلوک کیا، مجھے ایسے ہی ہینڈل کیا گیا جیسے کسی افسر کو کیا جاتا ہے۔

پاکستانی فوجی عدالت کی جانب سے کلبھوشن یادیو کو سزائے موت

اپریل 2018ء میں کلبھوشن یادیو کے خلاف دہشتگردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کروائی گئی، جس کے بعد فوجی عدالت نے بھارتی جاسوس کو ملک میں دہشتگردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنا دی۔

انڈین کمانڈر اور خفیہ ادارے را کے جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کو سزا سنائے جانے کے بعد ان کی والدہ اور اہلیہ سے 25 دسمبر 2017ء کو ملاقات کرائی گئی۔

بھارت اپنے جاسوس کا معاملہ عالمی عدالت انصاف لے گیا

بھارت نے اپنے جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سے بچانے کیلئے 8 مئی 2017ء کو عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا اور درخواست دائر کر دی جس میں انتہائی ڈھٹائی سے جھوٹا موقف اپنایا گیا کہ پاکستان نے بھارتی شہری کو گرفتار اور بعد ازاں سزا سنا کر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے، اس لیے سزا پر عملدرآمد فوری طور پر روک کر کلبھوشن یادیو کو رہا کیا جائے۔

اس کے بعد 9 مئی 2017ء کو عالمی عدالت انصاف نے پاکستان اور بھارت کو نوٹسز جاری کرکے 15 مئی کے لیے ابتدائی سماعت مقرر کرنے سے متعلق باقاعدہ آگاہ کیا۔

15 مئی کو عالمی عدالت انصاف میں پہلی سماعت ہوئی، جس میں بھارتی وکلا نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزا رکوانے کے لیے ابتدائی دلائل دیئے جبکہ پاکستان کی جانب سے بھارتی درخواست کی مخالفت کی گئی۔

18 مئی 2017ء کو عالمی عدالت انصاف نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے بھارتی درخواست کے حتمی فیصلے تک پاکستان کو کلبھوشن یادیو کو پھانسی دینے سے روک دیا۔ 13 جون کو عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کیس باقاعدہ سماعت کے لیے مقرر کر لیا۔

عالمی عدالت نے حکم دیا کہ بھارت 13 ستمبر 2017ء تک اپنی تحریری گزارشات جمع کرائے جبکہ پاکستان کو 13 دسمبر 2017 تک اپنی گزارشات جمع کرانے کا وقت دیا گیا۔

اس کے بعد عالمی عدالت انصاف نے 17 جنوری 2018ء کو فریقین کو تحریری دلائل جمع کرانے کی ہدایت دی، جس کے لیے بھارت کو 17 اپریل 2018 تک جب کہ پاکستان کو 17 جولائی 2018 تک کا وقت دیا گیا۔

کلبھوشن یادیو کیس کی عالمی عدالت انصاف میں باقاعدہ سماعت کا آغاز

انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کی باقاعدہ سماعت 18 فروری سے 21 فروری 2019ء تک ہوئی۔ 18 فروری 2019ء کو ہریش سالوے کی سربراہی میں بھارتی وکلا نے دلائل دیے جس میں انہوں نے اپنے جاسوس کلبھوشن یادیو کو معصوم قرار دیتے ہوئے اس کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا اور اسے ویانا کنونشن کے تحت قونصلر رسائی نہیں دی گئی۔

اس کے بعد 19 فروری 2019ء کو پاکستان کی جانب سے وکیل خاور قریشی نے دلائل دیے جس میں انہوں نے بھارتی موقف کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن یادیو کی بریت، رہائی اور حوالگی کا مطالبہ مضحکہ خیز ہے۔ بھارت ایک ایسے شخص کی حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے جس کی شہریت کی تصدیق نہیں کی گئی کیونکہ وہ ایک جاسوس اور دہشت گرد ہے۔ انہوں نے عالمی عدالت انصاف سے مطالبہ کیا کہ بھارت کی درخواست کو مسترد کیا جائے۔

پاکستانی وکیل خاور قریشی نے کلبھوشن یادیو کے پاسپورٹ کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ اس کے جاسوسی میں ملوث ہونے کا یہ واضح ثبوت ہے کہ اس کے دو پاسپورٹ ہیں اور دونوں اصلی ہیں، اس پر بھارت نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اس کے بعد 20 فروری 2019ء کو بھارتی وکیل نے دوبارہ دلائل پیش کیے جس میں ایک بار پھر ویانا کنونشن کا حوالہ دیا گیا۔ 21 فروری 2019ء کو پاکستان نے بھی جوابی دلائل پیش کیے جس میں پاکستانی وکیل خاور قریشی اور اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان نے بھارتی نکات کا شق وار جواب دیا۔ عالمی عدالت اںصاف نے دلائل مکمل ہونے کے بعد 21 فروری کو ہی فیصلہ محفوظ کیا۔

اس کیس کے دوران پاکستانی ایڈہاک جج تصدق حسین جیلانی خرابی صحت کی وجہ سے سماعت میں شامل نہ ہو سکے تھے۔ تاہم کیس کی سماعت کے چوتھے روز طبعیت بہتر ہونے پر وہ کمرہ عدالت میں موجود تھے۔