لاہور: (امتیازگل) عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کیس پاکستان یا بھارت کی جیت یا ہار سے متعلق نہیں تھا بلکہ یہ ثابت کرنے کیلئے تھا کہ بھارت نے حاضر سروس ہندو نیوی افسر کو تخریب کاری اور عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے مسلم ایجنٹ کے طو رپر دہشت گردی کے نیٹ ورکس تیار اور سپورٹ کرنے کیلئے استعمال کیا، پاکستان نے اپنا کیس یادیو کی جعلی شناخت مبارک حسین پٹیل اور مارچ 2016 ء میں گرفتاری تک پاکستان میں متعدد بار غیر قانونی آمد کی بنیاد پر تیار کیا تھا۔ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ بنیاد ی طور پر یادیو کو جاسوس ثابت کرتا ہے ۔ بھارت نے یادیو کی حقیقت سے انکار کے بجائے اپنے کیس میں بنیادی حقوق کو جواز بناتے ہوئے اس کی بھارت محفوظ واپسی کی استدعا کی۔ اس پر عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ جاسوسی پر پکڑے جانے کے باوجود یادیو کے کچھ حقوق ہیں جن کا احترام ہونا چاہیے۔
پاکستان کے عدالتی اور قانونی ڈھانچے میں ضابطہ فوجداری سے آئین ، آرمی ایکٹ 1952 (جس کے تحت یادیو کا ٹرائل ہوا)، سپریم کورٹ اور صدر کو رحم کی اپیلوں کے آپشنز شامل ہیں ان پر عالمی عدالت نے شبہ کا اظہار نہیں کیا جوکہ پاکستان کے قانونی نظام پر اعتماد کا اظہار اور تصدیق ہے ۔ دوسری جانب بھارتی حکام جاسوسی کے معاملے مکمل خاموش رہے ، وہ صرف یادیو کی بریت چاہتے تھے ۔ یہ بات ہر کسی کیلئے حیران کن ہے کہ حافظ سعید کی گرفتاری کی بات کرنیوالا بھارت کا سنکی میڈیا پاکستان میں یادیو کی پراکسی دہشت گردی سے نظریں کیوں چراتا ہے ؟ یادیو کیوں باربار غیر قانونی طور پر پاکستان جاتا رہا ہے ؟ عالمی عدالت نے کمانڈر یادیو کو قونصلر رسائی دیدی جوکہ پاکستان میں تخریب کاری کی منصوبہ بندی اور اس کی ڈوریں ہلاتا تھا۔ تاہم عدالت نے بھارت کی چار استدعائیں مسترد کر دیں، جن میں سزائے موت منسوخی اور رہائی ، یا پھر سول عدالت میں دوبارہ ٹرائل شامل ہیں، عالمی عدالت نے پاکستان کا دائرہ اختیار چیلنج نہیں کیا جس کی بھارت توقع کر رہا تھا۔ عالمی عدالت کے فیصلے سے پاکستان نے کو کچھ قانونی فائدے حاصل ہوئے ہیں ، جنہیں ایک عالمی سفارتی فائدہ میں تبدیل کرنا ایک چیلنج ہے ۔ عالمی عدالت کے فیصلے کا اس سے زیادہ موزوں وقت کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا، پہلی وجہ ٹرمپ انتظامیہ کا حال ہی میں بھارتی حمایت یافتہ بلوچستان لبریشن آرمی کو عالمی دہشت گرد قرار دینا ہے ۔ دوم، امریکا جس کی آئی ایم ایف کے گورننگ بورڈ میں اکثریت ہے ، پاکستان کو 6ارب ڈالر کا قرض دینے پر اعتراض نہیں کیا۔ تیسری وجہ تین بڑوں چین ، روس اور امریکا کا سہ فریقی افغان امن عمل اجلاس میں پاکستان کو شرکت کی دعوت اور اس بات پر زور دینا کہ افغانستان کے امن عمل میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے (یہ اجلاس 10، 11جولائی 2019 کو بیجنگ میں ہوا)۔ دراصل، اجلاس میں تینوں بڑوں نے اتفاق رائے سے تسلیم کیا کہ افغان امن عمل سمیت خطے میں قیام امن کے حوالے سے پاکستان کے کردار کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
چوتھی بات پاکستان کا زور و شور سے ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنا ہے جس پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کیساتھ اتفاق کیا تھا۔17 جولائی کو حافظ سعید کی گرفتاری اور جیش و جماعۃ الدعوۃ کے اثاثے ضبط کرنا اسی کا حصہ ہے ۔ وزیراعظم عمران خان کو پاکستان کی سنجیدگی کے بارے میں صدر ٹرمپ کو قائل کرنا ہے کہ ادارہ جاتی اور مالی رکاوٹوں کے باوجود پاکستان بھرپور اقدامات کر رہا ہے ۔ افغان امن ڈیل میں جلد بازی کے پیش نظر صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کو 22جولائی کو ملاقات کی دعوت دی ہے ۔ یہ دعوت اس امر کی نشاندہی کرتاہے کہ ٹرمپ انتظامیہ بالآخر پاکستان کا کردار تسلیم کرنے پر متفق ہو گئی ہے ۔گزشتہ سال دسمبر میں خط کے ذریعے صدر ٹرمپ کے وزیراعظم عمران خان سے تعاون مانگنے تک نئی دہلی اور کابل کے رہنما اسلام آباد کو اس قدر اہمیت بھی نہیں دینا چاہتے تھے جوکہ بطور ہمسایہ ملنی چاہیے ۔ پھر افغانستان کے گرد تیزی سے بدلتے حالات نے کایا پلٹ کر رکھ دی۔ بلاشبہ عالمی عدالت کے فیصلے کے کئی مثبت پہلو ہیں۔ پاکستان کوپھونک پھونک کر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے ، بغلیں بجانے کے بجائے گہری فکروسوچ وقت کا تقاضا ہے ۔ رہنمائی کیلئے چین کا دروازہ کھٹکھٹانے میں کوئی حرج نہیں۔