اسلام آباد: (تجزیہ: خاور گھمن) آج ملک میں عام انتخابات کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے تو مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں متحدہ حزب اختلاف یوم سیاہ منا رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتی ہیں اسی مناسبت سے احتجاج کیلئے 25 جولائی کا ہی دن چنا گیا تاکہ اپنے ووٹرز کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ موجودہ حکومت دھاندلی کے ذریعے معرض وجود میں آئی ہے۔
حالات کی ستم ظریفی کہیں یا پھر اپوزیشن کیلئے دلچسپ صورتحال ، رواں ہفتے ہی خیبر پختونخوا کا حصہ بننے والے قبائلی علاقوں کی 16 صوبائی نشستوں پر پہلی مرتبہ عام انتخابات ہوئے۔ آزاد امیدوار سب سے آگے رہے جنہوں نے 6 نشستیں حاصل کیں جبکہ سیاسی جماعتوں میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری رہا۔ صوبے کی حکومتی جماعت نے 5 نشستیں اور مجموعی طور پر 1 لاکھ 82 ہزار 116 ووٹ حاصل کیے۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جے یو آئی (ف) نے 3 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی نے ایک ایک نشست حاصل کی۔ جمعیت علمائے اسلام( ف) نے 1 لاکھ 13 ہزار 76 ووٹ حاصل کیے لیکن خلاف توقع (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی مقابلے میں کہیں نظر نہیں آئیں۔ نشست ملنا دور کی بات وہ قابل ذکر ووٹ بھی حاصل نہ کرسکیں، پیپلز پارٹی کو 28 ہزار تو مسلم لیگ (ن) کو صرف 8 ہزار ووٹ ملے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ فاٹا کو خیبر پختونحوا میں ضم کرنے کا فیصلہ (ن) لیگ کے دور حکومت میں ہوا تھا اور صوبے کو نیا نام پیپلزپارٹی نے دیا تھا۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق انتخابات صاف، شفاف اورکسی بھی قسم کے تشدد اور دھونس دھاندلی سے پاک رہے۔ اس صورتحال میں مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری دونوں ہی ان انتخابی نتائج کو پس پشت نہیں ڈال سکتے کیونکہ دونوں ووٹ کی حرمت اور طاقت کے داعی ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ موجودہ انتخابی نظام آئیڈیل نہیں اور اس میں بہتری کی ضرورت ہے لیکن اس اہم کام کیلئے پارلیمان کو ہی بروئے کار لانا پڑے گا ، یہ کام سڑکوں پر احتجاج سے ممکن نہیں، بلاول بھٹو اور مریم نواز کو یہ بات سمجھنا ہوگی۔
دوسرا ایشو جس پر متحدہ اپوزیشن آج احتجاج کر رہی ہے وہ مہنگائی ہے۔ حکومت کی تشکیل کا ایک سال پورا ہونے کو ہے لیکن اس بات میں کوئی دوآراء نہیں کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ شرح نمو کم ہوئی اور معاشی حالات ابترہیں۔ غریب کیلئے دو وقت کی روٹی پورا کرنا بھی مشکل، بے روزگاری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں حکومت نے حالات سنبھالنے کیلئے مشکل معاشی فیصلے کیے ہیں، ٹیکس نیٹ بڑھانے اوربر آمدات میں اضافے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں، سماجی شعبے پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ اب حکومت ناکام ہوتی ہے یا کامیاب اس کا فیصلہ 5 سال بعد ہی ہونا چاہیے، پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی طرح تحریک انصاف کو بھی پورا موقع ملنا چاہیے۔ 2023 ء کے انتخابات تحریک انصاف کی کارکردگی کی بنیاد پر ہونے چاہئیں، حکومت اور اپوزیشن نے اپنا مدعا عوام کے سامنے رکھنا ہے اور فیصلہ عوام نے اپنے ووٹ سے کرنا ہے۔ وزیر اعظم کے پاس 4 سال کا وقت ہے کہ وہ پارٹی منشور کے مطابق ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکیں، عام لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لائیں، 10 کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ بے گھر افرادکوچھت مہیا کرنے سمیت تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی کیے گئے وعدے پورے کریں۔ اپوزیشن حکومتی پالیسیوں پرکڑی تنقید کرے اور ملک کی بہتری کیلئے مثبت تجاویز دینے میں بھی عار محسوس نہ کرے۔ حکومت اور اپوزیشن اراکین کو ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے علاوہ سنجیدہ رویہ اختیا رکرنا چاہیے۔ پروڈکشن آرڈر زکے اہم معاملے پر بھی سیاست سے گریز کیا جانا چاہیے ، جیلوں سے آکرملزمان عوام کو بھاشن دیتے رہیں تو یہ جمہوریت کی خدمت ہرگز نہیںبلکہ عوام کو اس نظام سے بدظن کرنے کے مترادف ہے۔ پروڈکشن آرڈرز کا استعمال کس صورتحال میں ہونا چاہیے، حکومت اور اپوزیشن کو بالغ نظر ی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قانون پر نظر ثانی کرنی چا ہیے۔
تیسرا اہم پہلو جس پر آج کل اپوزیشن کی سیاست گرم ہے وہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی ہے۔ ملکی آئینی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی چیئرمین کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے جا رہی ہے، بظاہر یہ ایک لا حاصل مشق ہے لیکن اپوزیشن اس سے انا کی تسکین چاہتی ہے ورنہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی سے حکومت کی صحت پر اثر نہیں پڑتا، کیونکہ قانون سازی اکثریتی رائے سے ہوتی ہے نہ کہ چیئرمین سینیٹ کے کسی آرڈر سے۔ یکم اگست کو ایوان بالا کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی، بظاہر حزب اختلاف کے پاس 53 ارکان کی مطلوبہ تعداد موجود ہے لیکن اہم نقطہ یہ ہے کہ ووٹنگ خفیہ ہوگی اس وجہ سے بازی پلٹ سکتی ہے۔ کئی اپوزیشن اراکین حکومتی پلڑے میں جا سکتے ہیں، کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو چکا ہے اور اب یہ حکومت سے زیادہ اپوزیشن کاامتحان ہے۔