کراچی: (دنیا نیوز) محکمہ صحت سندھ میں 27 اسامیوں پر 300 سے زائد افراد کی بھرتی کا انکشاف ہوا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ کیا صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز ہے، افسران اپنی حکومتیں لگا کر بیٹھے ہیں، کوئی نوکری بغیر پیسے کے نہیں دیتے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہندو جم خانہ کی زمین پر نئی عمارت، سندھ اسمبلی کی نئی عمارت کی تعمیر اور محکمہ صحت میں غیر قانونی بھرتیوں کی سماعت ہوئی۔ محکمہ صحت میں غیر قانونی بھرتیوں کے معاملے پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بھرتیوں پرپابندی عائد کر دی اور سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت عظمیٰ کو بتایا گیا کہ محکمہ صحت میرپور خاص میں 27 آسامیاں تھیں جن پر 3سو 7 افراد کوغیر قانونی طورپر بھرتی کر لیا گیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ بھرتیاں جعلی ثابت ہونے پر نوٹیفکیش کالعدم کر دیا گیا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے آثار قدیمہ کی عمارت میں نئی تعمیر پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس گلزار نے کہا ناپا کی یہ عمارت ایک دن گرانا پڑے گی، بتایا جائے کہ آثار قدیمہ کی زمین پر عمارت کیسے تعمیر کر لی گئیں۔ دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے سوال کیا کہ حکومت سندھ نے سندھ اسمبلی کی عمارت میں نئی اسمبلی کیسے بنالی، کیا حکومت کو معلوم نہیں کہ سندھ اسمبلی کی بلڈنگ قیام پاکستان سے پہلے کی ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ نئی اسمبلی بلڈنگ کی تعمیر کے بھی اپنے قصے ہیں، معلوم ہے کہ نئی عمارت کی قیمت کہاں سے بڑھائی گئی ہے اور بیرون ملک ٹائلیں اور نل کون خریدنے گیا تھا ؟ جسٹس گلزار نے سوال کیا کہ آخر کون سا خطرہ تھا کہ اونچی اونچی فصیلیں کھڑی کر دیں گئی ہیں۔ عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ اور سیکریٹری کلچر کو طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔