امریکا پاکستان کیلئے بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہے گا

Last Updated On 23 August,2019 10:22 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بھارت سے مذاکرات کا امکان رد کرنا ظاہر کرتا ہے کہ بھارتی قیادت کے طرز عمل اور کشمیر کے حوالے سے اس کے اقدامات خصوصاً کشمیریوں سے ان کے سلوک نے پاکستانی لیڈر شپ کو اس نتیجہ پر پہنچایا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے تحفظات میں کتنی صداقت ہے بھارت مذاکرات کے آپشن پر کیونکر یقین نہیں رکھتا۔ نریندر مودی کی موجودگی میں کشمیر کاز اور کشمیریوں کے حوالے سے مثبت خبر کی توقع کیوں نہیں اور کیا واقعتاً عالمی قوتیں خطہ میں تناؤ کم کر سکیں گی۔

جہاں تک وزیراعظم عمران خان کے تحفظات کی بات ہے تو یہ حقیقت پسندانہ طرز عمل ہے دراصل مودی مائنڈ سیٹ ہی ضد، ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں کی روش کا دوسرا نام ہے۔ ویسے بھارت کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو شروع سے ہی پاکستان کے حوالے سے بدنیتی پر مبنی ہے، 3 جون 1947 کی تقسیم بندی تجویز کو تسلیم کرتے ہوئے کانگریس کی ورکنگ کمیٹی اور اس کی لیڈر شپ نے کھلے لفظوں میں کہا تھا کہ یہ عارضی ہے۔ بالآخر بھارت کو ایک ہونا ہے۔ 1971 میں پاکستان ٹوٹنے کے عمل پر اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں سے ان کے ہزار سالہ اقتدار اور تقسیم ملک کے دونوں مظالم کا بدلہ لے لیا۔ بی جے پی ، آر ایس ایس کا منشور یہی ہے کہ اکھنڈ بھارت قائم کرنا ہے اور تقسیم کی لکیر کو مٹانا ہے یہ وہ ذہنیت ہے جو مذاکرات اور تعلقات کی راہ میں حائل ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے لوگ موجود ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست اور نیوکلیئر طاقت بننے کے بعد سے اب تک ہمیشہ تنازعات پر مذاکرات کی بات کی اور کہا کہ مل بیٹھ کر ایشوز کا حل نکالا جا سکتا ہے اور تقریباً ڈیڑھ سو دفعہ مذاکرات کی میز بھی لگی مگر ہر دفعہ بھارت کے طرز عمل سے معاملات پر پیش رفت نہ ہو سکی اور حالات ہیں کہ بگاڑ کی طرف بڑھتے گئے۔

موجودہ لیڈر شپ عمران خان نے انتخابات سے اگلے ہی روز پریس کانفرنس میں بات چیت کا عمل آگے بڑھانے کا اعلان کیا کہ بھارت ایک قدم آگے بڑھائے ہم دو قدم اٹھائیں گے۔ مگر مجال ہے کہ بھارت سرکار ٹس سے مس ہوئی ہو۔ الٹا جب بھارت نے دہشت گردی کے نکتہ پر مذاکرات کی بات کی تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یہ کہتے نظر آئے کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں اس ایشو پر بھی بات ہو سکتی ہے، مگر وہی ضد، وہی ہٹ دھرمی اور وہی بڑے ہونے کا غرور۔ وزیراعظم عمران خان نے تو بھارتی انتخابی عمل کے دوران یہاں تک کہہ دیا کہ نریندر مودی کے جیتنے پر کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے مگر یہ چیز بھی الٹ پڑی۔ اس شر سے خیر کا یہ پہلو ضرور نکلا کہ ایک تو بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا ایشو غالب آیا اس حوالے سے عالمی طاقتیں تشویش ظاہر کرتی نظر آئیں تو دوسری جانب خود پاکستان کی روشن خیال لیڈر شپ پر مودی مائنڈ سیٹ عیاں ہو گیا اور اب وہی وزیراعظم عمران خان ہیں جو ایک وقت میں نریندر مودی کی جیت پر کشمیر ایشو کے حل کی توقع لگائے بیٹھے تھے۔ اب اسی حوالے سے لچک دینے کو تیار نہیں اور انہیں بالادستی کا علمبردار قرار دیتے ہوئے کشمیر کی مسلم اکثریت کے صفایا کے ناپاک مشن کا سرخیل بتا رہے ہیں۔

دوسری جانب کشمیریوں کی تاریخ ساز جدوجہد اس امر کی گواہ ہے کہ کشمیری بھارتی تسلط قبول نہیں کرتے، وہ اپنے مستقبل کے تعین کا اختیار چاہتے ہیں۔ اب نریندر مودی سرکار نے کشمیر کی حیثیت کو ختم کر کے گناہ کا ارتکاب کر ڈالا کشمیریوں کو گھروں میں پابند کرکے دنیا کو ہلا ڈالا ہے۔ صدر ٹرمپ اور عالمی قوتوں نے کشمیر کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال پر تشویش ظاہر کی اور خود صدر ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کسی حد تک بھارتی قیادت پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے وہ مسئلہ پر ثالثی کا کردار چاہتے ہیں اور محسوس یہ کیا جا رہا ہے کہ کسی حد تک ثالثی کا عمل شروع ہے زمینی اورخصوصاً علاقائی حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکا کسی طور پر بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان کے معاملہ میں بھارت کو ناراض کرے البتہ اس کی تشویش کا محور یہ ہے کہ دونوں نیو کلیئر پاورز کے درمیان تناؤ پر قابو پایا جائے کیونکہ اس کے نتائج عالمی امن کیلئے اچھے نہیں ہوں گے اب بھی صدر ٹرمپ کی تشویش اور پاکستان کے حوالے سے اچھے سلوک کو افغانستان کے تناظر میں لیا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان نے افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

ہمیں امریکی کردارکو سراہنے کی بجائے اس کے حقیقت پسندانہ حل پر زور دینا چاہیے اور الرٹ رہنا چاہیے یہ امر نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت اور اسرائیل امریکا کے اصل اتحادی ہیں اور پاکستان سے اس کا مفاد صرف افغانستان کی حد تک جڑا ہواہے۔ امریکا کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے اس کے سوال سے الرٹ رہتے ہوئے حکمت عملی طے کی جائے اور اصل اعتماد ان قوتوں پر کرنا چاہیے جو ہماری حلیف ہیں جنہوں نے سکیورٹی کونسل اجلاس بلانے میں بنیادی کردار ادا کیا اور ترکی کی طرح کشمیر پر جرات مندانہ ردعمل دیا۔ ہمیں امریکا کو محبوب قرار دینے کی بجائے اسے اس نکتہ پر لانا ہوگا کہ کشمیر خطہ کا نیو کلیئر فلیش پوائنٹ ہے یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو خطہ میں جنگ کے خطرات منڈلاتے رہیں گے۔


 

Advertisement