لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) کشمیر میں پیدا شدہ صورتحال پر ایک تاثر عالمی اور علاقائی سطح پر عام ہو رہا ہے کہ اگر دو نیوکلیئر پاورز کے درمیان کشمیر کے مسئلے میں امریکا اور عالمی قوتوں نے اپنا کوئی مؤثر اور فیصلہ کن کردار ادا نہ کیا تو اس مسئلے کی شدت کے نتائج خوفناک ہو سکتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دو طرفہ ڈپلومیسی جاری ہے اور وہ معاملے کی نزاکت کو جانتے ہوئے دونوں ممالک کو باہم مل کر مسئلہ حل کرنے پر زور دیتے نظر آ رہے ہیں اور اپنا کردار بھی ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔
یقیناً عالمی برادری اور خصوصاً امریکا کی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کو کسی بھی طور پر مسلح جدوجہد کی جانب نہ دھکیلا جائے اور بھارت کو باور کرایا جائے کہ اس کے 5 اگست کے اقدام نے دنیا کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے اور یہ کام محض زبانی نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کیلئے عالمی قوتوں کو بھارت کو ایک ویک اپ کال دینا ہوگی اور یہ باور کرانا ہوگا کہ بھارت کی طاقت کی پالیسی کسی طور پر بھی انہیں قبول نہیں اور نہ ہی عالمی اور علاقائی حالات اس کے متحمل ہو سکتے ہیں کیونکہ جنوبی ایشیا میں موجود دونوں بڑے ممالک نیوکلیئر پاورز ہیں اور ان کے درمیان کسی قسم کا تناؤ اور محاذ آرائی بالآخر جنگ کا ماحول پیدا کرے گی اور اگر اس مرحلہ پر بھارت کا ہاتھ نہیں روکا جاتا اور کشمیر کے حوالے سے اس کی طاقت اور قوت کے استعمال کی پالیسی کے آگے بند نہیں باندھا جاتا تو اس سے نہ صرف علاقائی صورتحال متاثر ہوگی بلکہ افغانستان میں جاری امن عمل کا فیصلہ کن مرحلہ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ سفارتی محاذ پر خود متحرک ہوئے ہیں اور اب دوسری جانب برطانوی وزیراعظم نے بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ٹیلی فونک رابطہ کر کے علاقائی صورتحال پر بات چیت کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کشمیر سے متعلق بھارتی فیصلے سے عالمی برادری، سیاسی ، قانونی، انسانی حقوق سے جڑے اداروں میں دباؤ آنے سے عملاً بھارت پر بھی دباؤ آیا ہے اور کشمیر کی صورتحال پر جہاں عالمی رہنما تشویش ظاہر کرتے نظر آ رہے ہیں وہاں بین الاقوامی میڈیا نے بھی کشمیر کی صورتحال کو آتش فشاں سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کے باوجود کشمیری عوام بھارتی تسلط قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں کرفیو کا تسلسل قائم رہے یا ختم کر دیا جائے یہاں ٹھہراؤ آنے والا نہیں اور نہ ہی کشمیری اپنی آزادی کیلئے جدوجہد سے پیچھے ہٹنے والے ہیں۔
نئی پیدا شدہ صورتحال میں اہم بات یہ ہے کہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کے خلاف اگر پاکستان کے اندر مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے تو خود بھارت کے اندر بھی نریندر مودی کی انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خلاف رد عمل سامنے آ رہا ہے اور وہاں کی سول سوسائٹی یہ کہتی نظر آ رہی ہے کہ نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے دراصل بھارت کیلئے اندرونی طور پر بہت سارے مسائل پیدا کر دیئے ہیں اور کشمیر پر بھارت کا یہ اقدام مستقبل میں بھارت کو بھی غیر مستحکم کر سکتا ہے بلکہ بھارت کے بعض دانشور تو یہ کہہ رہے ہیں کہ انتہا پسند مودی سرکار کا 5 اگست کا اقدام خود ان کی حکومت کے انجام کے حوالے سے اچھا نہیں کیونکہ اس سے بھارت کا جمہوری اور سیکولر چہرہ مسخ ہوا ہے۔