لاہور: (امتیاز گل ) چین آج کل اپنے قیام کی 70 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ چین کے حوالے سے، بالخصوص مغرب میں، مثبت اور منفی توجہ کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی اور یورپی میڈیا اور ان دونوں کے خطوں کی علمی شخصیات نے بھی حالیہ برسوں کے دوران چین کے مغربی اور شمال مغربی علاقوں سنکیانگ اور تبت کے حوالے سے چینی پالیسیوں اور اقدامات کو منفی بتایا ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی گفتگو یا مباحثے میں عموماً معاملہ تکرار تک پہنچ جاتا ہے، بالخصوص جب امریکا اور چین کے سکالرز بھی موجود ہوں۔ یہ معاملہ دو مختلف ثقافتوں کی جڑوں میں موجود دو مختلف بیانیوں کے تصادم کا ہے۔
ایسا ہی ایک موقع افغانستان، علاقائی سیاست اور تجارتی روابط سے متعلق مکالمہ بھی تھا جس میں پاکستان، افغانستان، امریکا اور چین کے ماہرین نے شرکت کی۔ مکالمے کا اہتمام 30 ستمبر کو سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (اسلام آباد) نے کیا تھا۔ پاکستانی اور افغان مقررین کی موجودگی میں امریکی مقرر جیمز شویملین اور جنوبی ایشیا کے امور کے چینی ماہر پروفیسر ژاؤ شوائی نے مختلف تاہم دلچسپ تناظر پیش کیا۔
امریکی سکالرز عام طور پر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ معاشی قوت کو ‘‘ہارڈ پاور’’ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ؟، کیا کوئی معاشی قوت عالمی سطح پر سکیورٹی کے حوالے سے اتھارٹی بن سکتی ہے ؟ چین کا مستقبل کیا ہوگا اور کیا اس کا موجودہ نظام برقرار رہ سکے گا ؟ پاک چین تعلقات کے حوالے سے یہ سوال بھی متعلقہ حلقوں میں گردش کرتا رہتا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے پردے میں چین بالآخر پاکستان سے کیا سلوک کرے گا۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کے بطن سے ہویدا ہوا ہے امریکا 14 ہزار کلو میٹر دور واقع افغانستان سے بھی اپنی سکیورٹی کو خطرات لاحق بتاکر پالیسیاں مرتب کرتا ہے۔ دوسری طرف چین کا بیانیہ بالعموم پر امن ترقی، مشترکہ خوش حالی، دوسروں کے معاملات میں مداخلت سے گریز اور اقتصادیات کو دو طرفہ یا ہمہ جہت تعلقات کی بنیاد بتانے پر مبنی ہے۔ اس کا بہترین نمونہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو ہے جس میں مشرق و مغرب، جنوب مغربی ایشیا اور افریقا کے 24 سے زائد ممالک شامل ہیں۔ چین کا یہ منصوبہ اپنے اندر سیاست اور معیشت دونوں کو سموئے ہوئے ہے۔
چین کے اعلٰی حکام خارجہ پالیسی کے حوالے سے سکیورٹی پر مبنی بیانیے کو مسترد کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین اپنی معاشی قوت کو کسی بھی صورت عسکری مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے کا قائل نہیں۔ امریکا یا کسی اور ملک کو چین سے کیوں ڈرنا چاہیے ؟ چینی حکام اس نکتے پر زور دیتے رہتے ہیں کہ چین ایک ایسے ماحول میں ترقی چاہتا ہے جس میں سب کے لیے کچھ نہ کچھ ہو۔ وہ اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ دوسروں کو چین کے مستقبل کی فکر کیوں لاحق ہے جبکہ چین کے پاس اتنے ذرائع ہیں کہ اپنے طور پر بقاء یقینی بناسکتا ہے ؟۔
مکالمے کے دوران جنرل (ریٹائرڈ) آصف یاسین ملک نے سی پیک اور چینی عزائم سے متعلق مغرب کے تحفظات مسترد کر دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب مغرب بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹوپر واویلا کر رہا ہے اور یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ چین اس منصوبے کی آڑ میں خطے میں لوٹ کھسوٹ کر رہا ہے۔ مغربی دنیا ان عالمی مالیاتی اداروں کے بارے میں کیا کہے گی جو عشروں سے پس ماندہ اقوام کو تباہی سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ سابق سیکرٹری دفاع نے وضاحت کی کہ جب بھی مغربی پالیسیوں کا متبادل تجویز کیا جاتا ہے تب مغرب کے لیے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کانفرنسز میں بہت سے دلچسپ سوالوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ مثلاً ایک موقع پر سفارت کار ایاز وزیر نے یہ سوال داغا کہ امریکا واقعی افغانستان میں امن بحال کرنا چاہتا ہے یا وہ اس ملک کو مزید غیر مستحکم رکھنے کا خواہش مند ہے ؟ اسی کے ساتھ پہلے تو طالبان سے مذاکرات کرنے اور پھر کیمپ ڈیوڈ ملاقات منسوخ کرنے کے حوالے سے امریکی مقاصد پر بھی سوالیہ نشان لگایا۔ افغانستان میں منشیات، امریکی قیادت میں مغرب کی دوغلی اور مبہم پالیسیوں اور کرپشن کے پھیلاؤ کا معاملہ بھی امریکی بیانیے کے لیے چیلنج بن کر ابھرتا رہتا ہے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی منسوخی اور امن معاہدے کی ‘‘موت’’ نے بہت سوں کو الجھا دیا ہے اور بہت سے سوالوں کو ابھرنے کا موقع دیا ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ جو ممالک ایران جیسے ملک سے تعاون کے خواہش مند ہیں ان پر امریکا کو پابندیاں کیوں عائد کرنا چاہئیں ؟ کسی بھی اہم معاملے سے چین، روس اور ایران جیسے علاقائی اسٹیک ہولڈرز کو دور رکھا جائے ؟ مکالمے میں پابندیاں عائد کرنے کی امریکی پالیسی پر بھی نکتہ چینی کی گئی۔ مکالمے کے شرکاء نے یہ سوال بھی کیا کہ چند ممالک پر عائد کی جانے والی امریکی پابندیوں کا اطلاق دیگر ممالک پر کیوں ہونا چاہیے ؟ بات بھی سامنے آئی کہ جب بھی چین اور روس کسی بھی حوالے سے امریکی سوچ اور پالیسی کو چیلنج کرتے ہیں تو انہیں منفی انداز سے پیش کرنے کا رجحان زور پکڑتا ہے۔