لاہور (دنیا نیوز) میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے آزادی مارچ اور دھرنے کا اعلان تو کر چکے ہیں لیکن گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ مولانا کی پشت پر دونوں بڑی سیاسی جماعتیں نہ پیپلز پارٹی ہے نہ ہی مسلم لیگ ن، دونوں جماعتیں آزادی مارچ کے مقاصد کو مشکوک انداز میں کل بھی دیکھ رہی تھیں اور آج بھی دیکھ رہی ہیں حتیٰ کہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف عملاً گھر بیٹھ گئے ہیں اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس حوالے سے گول مول باتیں کر رہے ہیں۔
مولانا کی پشت پر ان کے اپنے حامی ضرور ہوں گے لیکن حزب اختلاف کی کوئی بڑی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران بڑی مشاورت کی گئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں اپنے لوگوں کو بلایا، اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی علیحدہ تحریک چلانے کا اعلان کر دیا، آزادی مارچ کے وقت بلاول سندھ اور جنوبی پنجاب میں احتجاجی جلسوں سے خطاب کریں گے، دوسری جانب مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بتایا کہ وہ شدید علیل ہیں، ان کی کمر میں درد ہے جس کی وجہ سے وہ اہم فیصلہ سازی میں شریک نہیں ہوئے جو کوٹ لکھپت جیل میں ہوئی جہاں پر مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ نے نواز شریف سے ملاقات کی۔ کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات کے بعد بھی ن لیگ کے کسی لیڈر نے کسی دو ٹوک رائے کا اعلان نہیں کیا۔
سیاسی تجزیہ کار، روزنامہ دنیا کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں کے قائدین جیل کے اندر ہیں وہ یکسو ہیں کہ اس مارچ میں فضل الرحمن کا بھرپور ساتھ دیا جائے اور جو لیڈر شپ جیل سے باہر ہے یعنی بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف وہ دونوں حالات کا رخ دیکھ رہے ہیں ان کے بہت سے تحفظات بھی ہیں، آصف زرداری نے ایک ہفتہ پہلے اپنے ایک خاص آدمی کو مولانا فضل الرحمن کے پاس بھیجا تھا اور ان کو بتایا تھا کہ پارٹی کو ہدایات دے دی گئی ہیں اور انھیں جلد پتا چل جائے گا کہ پیپلز پارٹی بھی ان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں 13 لوگ کہہ رہے تھے کہ ہم کو نواز شریف کے فیصلے پر عمل کرنا چاہئے جبکہ شہباز شریف سمیت 8 افراد یہ کہہ رہے تھے اس عمل کا حصہ بننے سے گریز کیا جائے جس سے ملک میں جاری جمہوری عمل کونقصان پہنچے۔ دھرنے کے حوالے سے اہم بات یہ ہے حکومت کو اس قدر فکر نہیں ہے جتنی اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کو ہے۔
میزبان دنیا کامران خان کے ساتھ نے کہا بانی متحدہ الطاف حسین پہلی بار نفرت، تشدد، مار کٹائی اور اسی قسم کے دوسرے الزامات پر اکسانے کے الزام میں لندن میں پکڑ میں آئے ہیں، 27 سال سے لندن میں مقیم پہلی بار ان کی عدالتی پکڑ ہوئی ہے، وہ تین گھنٹے تک حوالات میں بند رہے جس کے بعد جج نے ضمانت منظور کر لی۔ برطانیہ میں اس قسم کے مقدمات میں ضمانت ملنا معمول کا عمل ہے اور ضمانت نہ ملنا ایک غیر معمولی عمل ہوتا ہے۔ ان پر 22 اگست 2016 کو نفرت انگیز تقریر کا الزام ہے، اس حوالے سے برطانوی وکیل بیرسٹر تیمور ملک نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا بانی متحدہ پر دہشت گردی کی جو دفعات لگائی گئی ہیں یہ بڑا سنگین معاملہ ہے، ان الزامات کے تحت دس سے پندرہ سال سزا ہوسکتی ہے، اس کے تحت تقریر یا کسی ویڈیو سے برطانیہ یا باہر کسی بھی ملک میں تشدد پر اکسایا گیا ہے تو ان پر مقدمہ چل سکتا ہے۔