لاہور: (امتیاز گل ) وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ چین کو دو زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پہلا زاویہ ہے روایتی چینی مہمان نوازی اور دوسرا زاویہ ہے حقیقی سیاسی اور معاشی ترقی سے متعلق حکمت عملی۔ آئیے ، ہم ان دونوں زاویوں کا ذرا تفصیل اور گہرائی سے جائزہ لیں۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی عمران خان کو بلند ترین پروٹوکول دیا گیا۔ صدر شی جن پنگ نے ان سے ملاقات کی اور ان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام بھی کیا۔ چین کی سات رکنی اعلٰی ترین قیادت میں تیسرے نمبر پر فائز نیشنل پیپلز کانگریس کے چیئرمین نے بھی عمران خان کا خیر مقدم کیا۔ یہ پروٹوکول کبھی کبھار، کسی بہت قریبی دوست کو دیا جاتا ہے۔ بیجنگ کی طرف سے دیا جانے والا خاموش پیغام یہ تھا کہ چینی قیادت پاکستان کو فیملی ممبر کی حیثیت سے ٹریٹ کرتی ہے اور ایسے دوروں کا مطلب یہ لیا جانا چاہیے کہ کوئی خاندان کا رکن ہی دورہ کر رہا ہے۔ نیز یہ کہ ہمیشہ خیر مقدم کیا جائے گا۔
دوم (جو پریشان کن ہے ) اہم اور فوری توجہ کے طالب معاملات کے حوالے سے پاکستان کے بعد از وقت اقدامات اور رسپانس پر چینی قیادت کا پیغام۔ سی پیک سے متعلق منصوبوں کے شروع کیے جانے کے بعد سے چینی دوستوں نے ایسے پیغامات کئی مواقع پر (ظاہر ہے ، بالواسطہ طریقے سے ) دیئے ہیں۔ انتہائی ڈھکے چھپے انداز سے اس نوعیت کے پیغامات وزیر اعظم کے حالیہ دورے کے موقع پر بھی دیئے گئے۔ یہ بات پھر جتائی گئی کہ سی پیک کی صورت میں اب گیند پاکستان کے کورٹ میں ہے۔ امداد اور سرمایہ کاری کے نام پر چند ارب ڈالر اونٹ کے منہ میں زیرے جیسے ہیں مگر خیر چین سے اس نوعیت کا کوئی مطالبہ کرنے کے لیے بھی تیاری تو درکار ہے۔ اس بات کا ذکر چین نے 8 ارب ڈالر کے ریلوے منصوبے ایم ایل ون کے حوالے سے کیا۔ ہر حال میں ہاں میں ہاں ملانے والے حکام کے حمایت یافتہ کم سوچنے اور زیادہ بولنے والے، زیادہ سے زیادہ بندوقچی کی سی حیثیت کے حامل وفاقی وزراء کے حوالے سے چین کی شکایت افسوسناک ہے۔
بیجنگ میں چین کے ایک اعلٰی افسر نے بتایا کہ گیند پاکستان کے کورٹ میں ہے ۔ آپ کی سینٹرل ڈیویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے اب تک پی سی ون کی منظوری بھی نہیں دی۔ اس کے بعد بھی ایکنک کی منظوری لازم ہے۔ ایک اور افسر نے کہا اپنے ہاں معاملات درست کیجیے۔ پوری تیاری کے ساتھ آئیے تو چین ایم ایل ون کے لیے بھی آسان شرائط پر نرم قرضہ دینے کو تیار ہے کیونکہ یہ ہمارے لیے بہت معمولی رقم ہے۔ چینی افسر نے اس امر کی نشاندہی بھی کی کہ گوادر پورٹ پر بجلی گھر اور ایئر پورٹ کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لیے پاکستان کو چار سال سے زائد وقت لگا ہے۔ اس سوال کا ایک جز سول ملٹری تعلقات سے بھی تعلق رکھتا ہ ۔ ایسا ہی ایک بلا واسطہ پیغام وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین سے دو تین دن قبل پاکستان میں چین کے سفیر یاؤ جنگ کی طرف سے بھی آیا تھا۔ کراچی کونسل آن فارن ریلیشنز کے تحت ایک مکالمے کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے یاؤ جنگ نے کہا کہ صرف سی پیک سے پورے پاکستان کی بھرپور ترقی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سی پیک کو لانچ کیے جانے کے بعد چار سال بعد وفاقی کابینہ نے فری زون پالیسی کی گزشتہ ہفتے منظوری دی ہے۔ اس سے صرف گوادر میں 19 منصوبے شروع کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ ابھی تک معاملہ مطابقت کے فقدان کا ہے۔ چین کی کمٹمنٹ طویل المیعاد اور سوچی سمجھی ہے جبکہ پاکستان کا رسپانس لاپروائی پر مبنی اور خام ہے اور اس کے جلو میں بہت سے شخصی اور ادارہ جاتی مفادات بھی دکھائی دیتے ہیں۔