لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) سعودی ایران تنازع میں پاکستان کا مصالحانہ اور سہولت کار کا کردار کس حد تک نتیجہ خیز ہوگا یہ تو آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا البتہ یہ ایک اچھا اقدام ہے کہ پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان محاذ آرائی کے خاتمہ میں کسی ایک فریق کے ساتھ ملنے کی بجائے دونوں کے درمیان صلح اور مصالحت کیلئے سرگرم ہے کیونکہ جب بھی سعودی عرب ایران کے درمیان تنازع بڑھے گا تو پاکستان کی سرزمین پر اس کے اثرات ہوں گے۔
جہاں تک مذکورہ عمل میں امریکی آشیرباد کا تعلق ہے تو امریکا یہ تو نہیں چاہے گا کہ ایران اور سعودی عرب باہم شیرو شکر ہو جائیں البتہ اس کی موجودہ صورتحال میں یہ خواہش ضرور ہے کہ ان کے درمیان کشیدگی انتہا تک نہ پہنچے تاکہ اس کے ہتھیار بھی بکتے رہیں اور اس کی فوج بھی اس سرزمین پر موجود رہے۔ وزیراعظم عمران خان کا دورہ ایران اس حوالے سے تو کامیاب رہا کہ ایران اور پاکستان کی لیڈرشپ نے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان اور ایران مل کر خطے کے استحکام کیلئے کام کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور ایران کے تنازع کے باعث خطے میں امن کے ساتھ معیشت کو بھی نقصان ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کیلئے کاوشیں شروع کی ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ خطہ میں کوئی ایسا تنازع کھڑا ہو جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے، خصوصاً ایران ہمارا ہمسایہ ہے اور سعودی عرب نے ہر ضرورت پر ہماری مدد کی ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ہم خطہ میں استحکام کیلئے پاکستانی کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن اگر کوئی ملک سمجھتا ہے کہ خطے میں عدم استحکام کے بدلے میں ردعمل نہیں آئے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یمن میں جنگ بند کی جائے۔ عوام کی مدد کی جائے اور امریکی پابندیاں اٹھائی جائیں۔ ایرانی صدر کے احساسات و جذبات سے عیاں تھا کہ وہ کسی بڑی لڑائی کے موڈ میں نہیں اور وہ باہم مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی چاہتے ہیں۔ ویسے بھی ایران کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ ڈپلومیسی کے محاذ پر کبھی یہ تاثر نہیں دیتے کہ وہ لڑائی کے موڈ میں ہیں تاہم طاقت اور قوت کے استعمال میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی تناؤ کی کیفیت میں بھی یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم مذاکرات اور ڈائیلاگ کے خواہاں ہیں اور اس بنیاد پر انہیں صلح جو قرار دیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب جب سعودی عرب کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو بعض بین الاقوامی فورسز کی آشیرباد کے باعث ان کا طرزعمل اور اعتماد ظاہر کرتا ہے کہ وہ دفاعی محاذ پر آتے دیر لگاتے ہیں۔ موجودہ صورتحال سے ظاہر ہے وہ یمن میں پھنسے ہوئے ہیں، اس صورتحال میں اسے امریکی تائید و حمایت تو ضرور حاصل ہے مگر یمن کا کھیل ان کی جان چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔ جہاں تک ایران اور سعودی عرب کے درمیان پاکستانی کردار کا سوال ہے تو اس میں وزیراعظم عمران خان کو امریکی تائید حاصل ہے کیونکہ امریکا اس صورتحال میں کسی ثالثی کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ وہ نہ تو ایران سے بات کر سکتا ہے اور نہ ہی ایران ان کی بات سن سکتا ہے لہٰذا انہوں نے ایک ایسے ملک اور اس کی لیڈرشپ کا انتخاب کیا جس کا احترام دونوں ممالک میں موجود ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے برسراقتدار آنے کے بعد سعودی عرب کے دو دورے کئے ہیں اور ایران کا بھی ان کا یہ دوسرا دورہ ہے۔ ادھر ایرانی قیادت نے ان کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا ہے لیکن جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ یہ بیل منڈھے چڑھ پائے گی تو یہ کہناقبل از وقت ہے کیونکہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مسائل سیاسی اور علاقائی ہی نہیں مذہبی بھی ہیں جس نے ہمیشہ انہیں ایک دوسرے سے دور رکھا ہے۔