لاہور: (دنیا نیوز) لاہور ہائیکورٹ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کی درخواست پر آج دوبارہ سماعت کرے گی۔
گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل بنچ نے درخواست پر سماعت کی۔ شہباز شریف نے امجد پرویز ایڈووکیٹ کی وساطت سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عالیہ سے نواز شریف کی بیماری کی بنیاد پر ضمانت منظور ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود وفاقی وزارت داخلہ نے نام ای سی ایل سے نہیں نکالا۔ نواز شریف سزا یافتہ ہونے کے باوجود بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر بیٹی کیساتھ پاکستان واپس آئے۔
وکیل امجد پرویز نے موقف اختیار کیا کہ ہائیکورٹ نے نواز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے حوالے سے کوئی قدغن نہیں لگائی۔ عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں کہ پلی بارگین کرنے والے مجرموں کے نام بھی ای سی ایل سے نکالے گئے۔
انہوں نے عدالت سے اپیل کی ہے کہ وفاقی کابینہ نے ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست پر شرائط عائد کر دی ہیں۔ نواز شریف کا نام غیر مشروط طور پر نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا جائے۔
عدالت عالیہ نے شریف فیملی کے وکیل سے استفسار کیا کہ شہباز شریف کا نام بھی ای سی ایل میں ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے امجد پرویز کا کہنا تھا کہ ان کا نام بھی ای سی ایل میں تھا لیکن ہائیکورٹ نے اسے نکالنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ کیا نیب اسلام آباد کی سفارش پر نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا دائرہ اختیار لاہور ہائیکورٹ کا نہیں ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ وفاقی ادارے نے نام ای سی ایل سے نکالنا ہے تاہم لاہور ہائیکورٹ کے پاس بھی اس کیس کو سننے کا اختیار ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے مزید پوچھا کہ کیا نواز شریف باہر جانا بھی چاہتے ہی یا نہیں؟ وکیل امجد پرویز نے کہا کہ میں ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کر دیتا ہوں۔ لاہور ہائیکورٹ نے جمعے تک وفاقی حکومت سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت تک ملتوی کر دی۔
ادھر وفاقی حکومت نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو اس درخواست کی سماعت کا اختیار ہے۔