لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں 100 روز سے بھی زائد مسلسل محاصرے کے عمل کو نریندر مودی سرکار کی فاشسٹ ذہنیت کا آئینہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا عمل جاری ہے جبکہ طاقتور عالمی طاقتیں اپنے تجارتی مفادات کے باعث خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
سوال جنم لیتا ہے کہ اگر سب کچھ جانتے ہوئے عالمی طاقتیں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں تو کیا بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کے عمل کو ان کی تائید و حمایت حاصل ہے اور دوسرا یہ کہ وزیراعظم عمران خان جن طاقتور طبقات کے تجارتی مفادات کی بات کر رہے ہیں، انہیں جھنجوڑنے کیلئے خود حکومت نے کیا کیا ہے اور وہ کونسی وجوہات ہیں جن بنا پر بھارت ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر پر قیامت صغریٰ برپا کئے ہوئے ہے۔ عملاً مقبوضہ وادی میں صورتحال یہ ہے کہ گھروں میں نظر بند شہری شدید غذائی بحران سے دو چار ہیں، ہزاروں بیماروں کو ادویات دستیاب نہیں۔
عالمی میڈیا کے مطابق ہر دس نہتے کشمیریوں پر ایک مسلح بندوق بردار مسلط ہے۔ بیس ہزار سے زائد کشمیری جیلوں میں بند ہیں۔ چھ ہزار سے زائد نامعلوم اور اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔ مسلسل ظلم و ستم اور کشیدگی اور تناؤ کے سبب 49 فیصد بالغ کشمیری شہری دماغی امراض کا شکار بن چکے ہیں۔ ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی آبرو ریزی اور بے حرمتی اور نوجوانوں کو پیلٹ گنوں کے ذریعہ بینائی سے محروم کرنا روز مرہ کامعمول ہے۔ لیکن عالمی سطح پر سرد مہری اب مجرمانہ حیثیت اختیار کر رہی ہے خصوصاً عالم اسلام نے بھی آواز نہ اٹھا کر اور بالواسطہ طور پر بھارت کا ساتھ دے کر ایک مایوس کن سوچ پیدا کی ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت نے بھرپور رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری میں تحریک پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن بعد ازاں حکومت مؤثر مہم کو جاری نہ رکھ سکی اور بڑی بد قسمتی یہ ہوئی کہ پاکستان میں احتجاجی مارچ اور دھرنے کی صورت میں کشمیر ایشو سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہوئی اور حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کے اندر پیدا شدہ صورتحال اور سیاسی تناؤ نے کشمیر کاز پر کوئی بڑا کردار ادا کرنے کی بجائے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔
جہاں تک کشمیریوں کے اندر جوش و جذبہ اور تحریک کا سوال ہے تو مقبوضہ وادی سے آمدہ خبروں کے مطابق کشمیری حریت پسندوں اور جوانوں کو جب اور جہاں موقع ملتا ہے وہ اپنے رد عمل کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور مسلسل کرفیو کا عمل بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ بھارت کی مودی سرکار کو علم ہے کہ بھارتی فوج کا محاصرہ جب ٹوٹا کشمیری پھر باہر نکل کر آزادی کے نعرے لگائیں گے۔ البتہ بنیادی سوال یہی ہے کہ پاکستان اس صورتحال میں کہاں کھڑا ہے۔ پاکستان کو چاہیے آزادی کشمیر کی تحریک کی مؤثر مدد کرے تا کہ بھارت پر امن حل کیلئے تیار ہو۔ عالمی رائے عامہ کو منظم کیا جائے ۔ قوم کے اندر کشمیر کاز کی تحریک کو زندہ رکھا جائے اور وزیراعظم عمران خان جائزہ لیں کہ کیا واقعتاً ہم نے کشمیر کاز پر آخری حدوں کو چھوا ہے یا محض اخباری بیانات ، اعلانات اور قراردادوں پر اکتفا کیا ہے۔