اسلام آباد: (سلمان غنی) سارے عمل کی تحقیقات ہونی چاہئے ، لگتا ہے سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا حکومتی نا اہلیوں اور ناکامیوں کا ملبہ اداروں پر نہیں گرنا چاہئے ، خصوصی گفتگو
مسلح افواج کے سابق سربراہ جنرل اسلم بیگ نے فوج کے سربراہ کی ایکسٹینشن کے عمل پر حکومتی کردار کو مجرمانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انتہائی حساس ایشو پر حکومتی نا اہلی نے دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کروائی ہے ۔ وزارت دفاع ، وزارت قانون اور وزیراعظم ہاؤس کے لوگ اتنے نکمے نہیں جنہوں نے سمری بنائی اور نوٹیفکیشن جاری کیا سارے عمل کی تحقیقات ہونی چاہئے ۔ لگتا ہے جان بوجھ کر ایسا کیا گیا اور کسی نہ کسی سطح پر کوئی گڑ بڑ ضرور موجود ہے اور اگر اس کا پتہ نہ لگایا گیا تو مستقبل میں ایسا کوئی تماشا پھر کھڑا ہو سکتا ہے ۔ ادارے آئین پاکستان کے پابند ہیں اور آئین پاکستان کے تحت ہی انہیں حکومت کے تابع کام کرنا پڑتا ہے یہ کہنا کہ حکومت کو کوئی چلنے نہیں دیتا یہ سراسر پراپیگنڈا ہے ۔ حکومت کی نا اہلیوں اور ناکامیوں کا ملبہ اداروں پر نہیں گرنا چاہئے ۔دنیا نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے جنرل اسلم بیگ کا کہنا تھا کہ حکومتی عمل سے فوج کے مورال پر اچھے اثرات نہیں پڑے ۔ مجھ سے بڑی تعداد میں افسران نے رابطے کر کے پوچھا ہے کہ ہمارے چیف سے ایسا سلوک کیونکر ہوا، کس نے کیا؟ جنرل اسلم بیگ نے کہا کہ چیف جسٹس نے درست طرز عمل اختیار کیا ہے ، عدالت عظمیٰ کا یہی کردار ہے جو اس نے سرانجام دیا اور حکومتی ذمہ داران اور ان کے قانونی ماہرین کو کہا کہ جائیں جا کر غلطیاں دور کریں اور پھر کورٹ کے سامنے آئیں۔ عدالت عظمیٰ نے غلطیوں کی نشاندہی کر کے مستقبل میں ایسی کسی صورتحال کا راستہ روکا ہے اور قانون کے تحت سمری تیار کرنے کی بات کی ہے ۔ جنرل اسلم بیگ نے فوجی سربراہ کیلئے مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے سوال کے جواب میں احتراز برتتے ہوئے کہا کہ میں نے تو نہ اپنے لئے کبھی ایسی خواہش ظاہر کی اور جو کچھ کیا آئین پاکستان کے تحت کیا، ہم خود کو آئین، قانون کا پابند سمجھتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ توسیع کا معاملہ حکومت کا فیصلہ ہے ۔ آرمی چیف نے ایسی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی ہوگی۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ خرابی شاید اس لئے پیدا ہوئی کہ حکومت میں اہل لوگوں کا فقدان ہے مجھے فکر پڑ گئی ہے کہ جو حکومت اپنے سپہ سالار کی مدت ملازمت کے حوالے سے سنجیدہ نہ ہو وہ ملکی معاملات خصوصاً خارجہ امور اور معاشی بدحالی، عوام کی حالت زار، گورننس کے حوالے سے کتنی سنجیدہ ہوگی۔