لاہور: (سہیل احمد قیصر) جنیوا کنونشن کے تحت ہسپتالوں پر حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ ماضی میں متعدد مواقع پر ہسپتالوں پر حملوں کے ذمہ داروں کو عالمی عدالت انصاف کا سامنا بھی کرنا پڑچکا ہے۔ ہمارے ہاں مقامی سطح پر ہسپتالوں کے اندر توڑ پھوڑ یا ہسپتالوں میں گھس کر کسی مخالف کو قتل کر دینے کے واقعات تو رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن وکلا کی جانب سے پی آئی سی پر اتنا بڑا حملہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ قرار دیا جاسکتا ہے، جس کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج کچھ مریض اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملے سے پہلے وکلا کی طرف سے بنائی جانیوالی مختلف ویڈیوز نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے، ویڈیوز میں وکلا برملا ہسپتال کے اندر گھس کر مارنے کے عزم کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ تمام صورتحال کے دوران ضلعی انتظامیہ حالات بروقت بھانپنے میں مکمل طور پر ناکام رہی، جس وقت وکلا نے مال روڈ سے پی آئی سی کی طرف مارچ شروع کیا تو انتظامیہ نے اسے سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ پی آئی سی کے باہر صرف احتیاطی طور پر ہی پولیس کی نفری تعینات کی گئی جسے بالکل انداز ہ نہیں تھا کہ کیا ہوسکتا ہے۔ وکلا کا ایمرجنسی پر دھاوا بولنے کے دوران پولیس اس وقت حرکت میں آئی جب اہلکاروں کو تشددکا نشانہ بنایا گیا۔ عمومی طور پر وکلا کیخلاف کارروائی گلے پڑنے کے خدشے پر پولیس ان کیخلاف کسی کارروائی سے گریزاں نظر آئی۔
واضح رہے کہ 2010 کے دوران وکلا پر لاٹھی چارج پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے ازخود نوٹس لیا تھا، جس کے نتیجے میں پولیس کے اعلیٰ افسر بھی پیشیاں بھگتتے رہے۔ حالیہ واقعہ کے دوران بھی پولیس نے پہلے غیرجانبدار رہنے کا رویہ ہی اپنایا تھا جس نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ حکومت کیلئے پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ اس واقعہ کے اثرات دوسرے شہروں پر بھی پڑسکتے ہیں جہاں پر ڈاکٹروں اور وکلا کے درمیان تنازع شروع ہوسکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کی پہلی ترجیح طرفین کی طرف سے احتجاج کے دائرہ کار کو مزید وسیع ہونے سے روکنا ہے۔