لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) پاکستان نے ایک مرتبہ پھر افغانستان میں امن اور اس کیلئے پاکستان کے مثبت کردار اور سہولت کاری کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کے استحکام کیلئے ناگزیر ہے اور اس مقصد کیلئے ممکنہ اقدامات کریں گے۔ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد ایک مرتبہ پھر پاکستان کے دورہ پر ہیں۔ ان کی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقات ہوئی۔ ملاقاتوں میں علاقائی اور خصوصاً افغان امن عمل پر تفصیلی غوروخوض ہوا۔ ملاقاتوں میں پاکستان کی جانب سے اپنے اصولی موقف کو دہراتے ہوئے کہا گیا کہ طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں۔ افغانستان میں امن سیاسی ڈائیلاگ سے ہی ممکن ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ مفاہمتی امن عمل جلد بحال ہوگا۔
ملاقاتوں میں پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو افغان طالبان اور امریکا کے وفود کی سطح پر مذاکرات سے آگاہ کیا گیا اور افغانستان میں امن کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو سراہا گیا۔ مذکورہ ملاقاتوں کے عمل کے ذریعہ سوالات یہ اٹھے ہیں کہ مذاکرات کی نتیجہ خیزی کا انحصار امریکا پر ہے اور طالبان سے مذاکرات کی معطلی کے بعد اب باضابطہ اعلان کیا متوقع ہے۔ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے ہونے والے نو ادوار کے بعد کیا مذاکراتی سلسلہ نئے سرے سے شروع ہوگا یا مذاکرات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ افغانستان کی صورتحال اور افغان امن عمل کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے حوالہ سے فیصلہ اور خصوصاً مذاکرات کی کامیابی کا اعلان خود صدر ٹرمپ کی ضرورت ہے کیونکہ یہ صدر ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ دنیا بھر کے مختلف ممالک خصوصاً افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا یقینی بنائیں گے تاکہ امریکا پر پڑنے والا اربوں ڈالرز سالانہ کا جنگی بوجھ کم ہو اور یہ رقم امریکی عوام پر خرچ کی جائے۔
صدر ٹرمپ جو پہلے پہل پاکستان کو ٹارگٹ کرتے نظر آتے تھے بعدازاں انہیں پاکستان کے اس موقف کی جانب لوٹنا پڑا جو پاکستان امریکا سمیت دنیا بھر کو باور کراتا نظر آتا تھا کہ امریکا اور نیٹو افواج افغانستان پر اپنا تسلط قائم نہیں کر سکتیں اور نہ ہی ان کی بنائی جانے والی کٹھ پتلی حکومتیں یہاں اپنی رٹ قائم کر سکتی ہیں اور وہی ہوا کہ اٹھارہ سال تک امریکا اور دیگر مغربی ممالک یہاں اربوں کھربوں ڈالرز خرچ کر کے اپنی افواج بھجوا کر بھی اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکے اور یہاں ہونے والے ردعمل کے باعث امریکا اور نیٹو افواج ایک ایسی دلدل میں دھنستی چلی گئیں جہاں سے نکلنا ممکن نظر نہیں آ رہا تھا اور یہاں کی مقامی انتظامیہ انہیں کسی قسم کی مدد دینے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ بعدازاں نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے امریکا نے پاکستانی موقف سے رجوع کیا اور پاکستان نے اپنا موثر کردار ادا کرتے ہوئے امریکا اور طالبان کو ایک میز پر لانے کیلئے بنیادی کردار ادا کیا اور دوحہ میں ہونے والے نوادوار کے بعد جب معاہدہ فیصلہ کن موڑ پر پہنچا تو خود صدر ٹرمپ نے کابل میں ایک حملے کو جواز بناتے ہوئے معاہدے کے اعلان کو معطل کرنے کا اعلان کیا جس پر طالبان نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جب معاہدے پر دستخط ہی نہیں ہوئے تو خلاف ورزی کا کیا سوال۔ ان کا کہنا تھا کہ بالآخر امریکا کو طالبان سے مذاکرات کی بحالی کیلئے رجوع کرنا پڑے گا اور ایسا ہی ہوا اور مذاکراتی عمل چل پڑا۔
نئی صورتحال میں بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکا طالبان کے درمیان نو مختلف ادوار میں طے شدہ چیزوں پر دوبارہ غوروخوض کیوں ؟ طے شدہ امور پر پیش رفت کر کے افغانستان میں امن عمل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس میں رکاوٹ کون ہے ۔ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت اور افغانستان میں موجود اشرف غنی انتظامیہ ہے جو یہ بات ہضم نہیں کر پا رہے کہ افعانستان میں پھر سے طالبان کا تسلط قائم ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امریکا میں موجود اپنی لابی کو متحرک کئے ہوئے ہیں۔ پینٹاگان اور دیگر امریکی ذمہ داران نے پہلے بھی اس دباؤ میں ٹرمپ پر معاہدہ معطل کرنے پر زور دیا اور اب بھی وہ نہیں چاہیں گے کہ معاہدہ پر دستخط ہوں لیکن یہ معاہدہ امریکی ضرورت ہے اور امریکا سمجھتا ہے کہ اس معاہدہ کی صورت میں اس کے مفادات بھی یقینی بن سکتے ہیں اور افغانستان میں امن کے قیام میں بھی پیش رفت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکا خطہ میں اپنے اتحادی بھارت کو مذکورہ معاہدہ کے خلاف سازشوں سے باز رکھے اور اپنی کٹھ پتلی اشرف غنی انتظامیہ کو اس کا آلہ کار نہ بننے پر زور دے تب ہی امن عمل کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا میں امن معاہدہ کو بھارت کیلئے اقتصادی خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارت سمجھتا ہے افغان امن عمل کی کامیابی دراصل خطہ میں پاکستان کی اہمیت اور سی پیک کے مستقبل کے حوالہ سے اہم ہے کیونکہ افغانستان میں امن صرف پاکستان کی ضرورت ہی نہیں خود علاقائی فورسز خصوصاً چین، روس اور ایران بھی اپنے اپنے مفادات میں افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں۔ امکانات یہی ہیں کہ امریکا نئے سال کے آغاز سے پہلے طالبان سے معاہدہ کی حتمی حیثیت پر پیش رفت چاہتا ہے تاکہ اس کے نتیجہ میں امریکی افواج کا انخلا ممکن ہو اور صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں افغانستان کی صورتحال کو کیش کرا سکیں۔ اشرف غنی انتظامیہ یہ سمجھتی ہے معاہدہ سے قبل ہی اس کے مستقبل کا تعین کر دیا جائے ورنہ معاہدہ کے بعد اس کی رہی سہی حیثیت بھی ختم ہو جائے گی اور یہی خوف اشرف غنی انتظامیہ کو جینے نہیں دے رہا۔