لاہور: (دنیا نیوز) میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا تو احتساب ہو گیا ہے لیکن کیا اس اقدام میں قانونی معاونت کرنے والوں کا بھی احتساب ہوگا ؟ پاکستان میں ہر مارشل لا کو قانونی چھتری عدلیہ نے فراہم کی، ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف مشہور زمانہ ڈوسو کیس سامنے آیااس وقت کے جسٹس منیر نے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ کامیاب فوجی انقلاب کو بین الاقوامی طور پر آئین تبدیل کرنے کا درست طریقہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ماہر آئین و قانون بیرسٹر اعتزاز احسن نے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 6 میں شق 2 کا اضافہ کیا گیا ہے کہ اس میں اعانت کرنے والا بھی سنگین غداری کا مرتکب ہوگا۔ یہ ترمیم 20 اپریل 2010 کو منظور کی گئی تھی۔ اس کے مطابق 20 اپریل 2010 کی تاریخ سے اعانت کے مرتکب کا ٹرائل ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے 1998 میں لیاقت حسین کیس میں ملزم کی غیر حاضری میں ٹرائل کو ختم کر دیا تھا اور قرار دیا تھا کہ ملزم کی عدم موجودگی میں ٹرائل نہیں ہوسکتا چاہے ملزم مفرور ہو تا ہم چند سال پہلے جسٹس آصف کھوسہ کا فیصلہ ہے کہ اگر ملزم اس وقت تک حاضر رہتا ہے جب اس پر فرد جرم لگ جاتی ہے اور اس کے بعد اگر مفرور ہے تو اس کا ٹرائل غیر حاضری میں ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا پاکستان کی ملٹری تاریخ میں جن دو تین آرمی چیفس کا نام مثبت طور پر لکھا جائے گا ان میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل راحیل شریف شامل ہیں کیونکہ انہوں نے شمالی وزیرستان کے مورچے کو تباہ کیا۔ ان کا کہنا تھا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو حکم نہیں دے سکتی، یہ ارکان پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔
دریں اثنا میزبان کامران خان نے افغانستان کے حوالے سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا واضح طور پر لگتا ہے امریکی صدر ٹرمپ افغانستان سے فوجی واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل بہت متحرک ہو گئے ہیں دوحا میں طالبان سے مذاکرات ہوئے۔ افغان امور کے ماہر صحافی سمیع اللہ یوسف زئی نے کہا کہ اگلے ہفتے امریکی صدر ٹرمپ افغانستان سے فوجی انخلا سے متعلق کوئی اعلان کر دیں گے لیکن اس سے طالبان کے مطالبات مزید بڑھ جائیں گے۔