لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) بھارت کی جانب سے ایل او سی پر صورتحال سنگین ہونے کے اعلان کے جواب میں پاکستان نے بھی واضح کیا ہے کہ بھارت نے ایل او سی پر کوئی حرکت کی تو پاکستان بھرپور، بر وقت اور مناسب جواب دے گا۔ اور بھارت کو 27 فروری کو نہیں بھولنا چاہئے۔ مذکورہ صورتحال کی روشنی میں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت کے ریٹائرمنٹ کے قریب جانیوالے آرمی چیف جنرل بپن راوت کی اس دھمکی کا پس منظر کیا ہے۔
بھارت اس صورتحال میں کسی جارحیت کی پوزیشن میں ہے اور بھارت کے مذموم ایجنڈے کا جواب پاکستان کیسے دے سکتا ہے ؟ دنیا بھارت کی ان دھمکیوں کا نوٹس لے رہی ہے ؟ جہاں تک بھارتی آرمی چیف کی جانب سے ایل او سی پر سنگین صورتحال طاری کرنے کے اعلان کا تعلق ہے تو یہ ان کی اندرونی صورتحال اور خود فوج کے سربراہ کے اندرونی خوف کا عکاس ہے اور بھارت کا وتیرہ ہے کہ وہ اپنے ملک کے اندر پیدا غیر معمولی اور ہنگامی صورتحال کے سدباب کا جواب ہمیشہ پاکستان کیخلاف انتہا پسندانہ اور شدت پسندانہ جذبات کو ہوا دے کر کرتا ہے اور آج بھارت کی انتہا پسند حکومت اور اس کے شدت پسند وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسیوں کے اثرات خود بھارت میں اقلیتوں کی جانب سے شدید رد عمل کی صورت میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں خصوصاً شہریت کے متنازعہ قانون کیخلاف ہونیوالے مظاہروں نے ثابت کر دیا ہے کہ بھارتی سرکار بھارت کو اب صرف ہندوستان بنانے پر کاربند ہے اور اس کی موجودگی میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کا جینا اجیرن بنایا جا رہا ہے اور بھارت کے اندر پیدا شدہ صورتحال نے خود بھارت کا فاشسٹ اور انتہا پسند چہرہ دنیا پر ایکسپوز کر دیا ہے۔
لہٰذا مذکورہ صورتحال سے نمٹنے اور نکلنے کیلئے اس نے اپنے روایتی ہتھکنڈے کا استعمال کرتے ہوئے ایل او سی کو گرم کرنے کا عندیہ دیا ہے اور ایسی خبریں ہیں کہ اس نے ایل او سی پر اینٹی ٹینک میزائل اور دیگر میزائل نصب کرنا شروع کر دیئے ہیں اگر بھارت کے مائنڈ سیٹ کو پڑھا جائے تو بھارت کے علاقائی عزائم میں بڑی رکاوٹ پاکستان ہے اور اسے خود معلوم ہے کہ نیوکلیئر پاکستان کو زیر نہیں کر سکتا۔ اسے اپنی کمزوریوں اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت کا احساس ہے۔ لیکن وہ اپنے بیانات اور اعلانات کے ذریعہ پاکستان پر نفسیاتی دباؤ غالب رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن پاکستان میں اور ایشوز پر دو آرا ہو سکتی ہیں مگر بھارت، بھارت کے جارحانہ عزائم کیخلاف قوم اور فوج متحد ہیں اور اس کا عملاً اظہار بھارت کی جانب سے بالا کوٹ پر چوروں کی طرح کئے جانیوالے حملے سے ظاہر ہو چکا ہے۔ جس کے جواب میں پاکستان نے دن دہاڑے پاکستان آنیوالے بھارتی طیاروں کو ان کے انجام پر پہنچا یا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ 27 فروری 2019 کا دن بھارت کی سیاسی اور دفاعی تاریخ میں اس کی شرمندگی اور جگ ہنسائی کا باعث بنا ہے ۔ لہٰذا یہ کہنا کہ بھارت ایل او سی کو گرم کر کے پا کستان پر جارحیت مسلط کرے گا یہ اس کی خام خیالی ہے۔
البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ خدا نہ کرے کہ پاکستان کے اندر کوئی غیر معمولی اور ہنگامی صورتحال طاری ہو کیونکہ دشمن ہمیشہ موقع کی تاڑ میں رہتا ہے اور دشمن سے ہمیشہ الرٹ رہنا چاہئے اور پاکستان کے اندر ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے اندر بعض اداروں کے درمیان غیر اعلانیہ تناؤ کی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے بھی بھارت کی جانب سے شر پسندی سامنے آ رہی ہے اور اسی بنا پر اس نے سرحدوں پر غیر معمولی نقل و حرکت بڑھا دی ہے۔ دشمن کے عزائم کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے اپنے طرز عمل اور نکتہ نظر پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور یہ بنیادی ذمہ داری خود حکومت اور وزیراعظم عمران خان کی ہے کہ بعض عدالتی فیصلوں پر پیدا شدہ صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے اسے اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی وجہ نہ بننے دیں، کیونکہ عدالتی فیصلوں کو محض عدالتی فیصلوں کے طور پر لینا چاہئے اور اگر عدالتوں کی جانب سے آنیوالے فیصلوں پر تحفظات ہیں تو انہیں اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کر کے صورتحال میں بہتری پیدا کی جا سکتی ہے کیونکہ آج کی صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک انٹرنیشنل ایجنڈے کے تحت پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے کی کوششیں شروع ہیں اور اس ایجنڈے پر پاکستان کے اندر کون کون، کس کس طرح سے گامزن ہے، اس امر کا جائزہ لینا سب کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان میں سیاست کی بنیاد پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے، لیکن اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ اپنے اپنے مفادات کیلئے ملکی بقا و سلامتی پر اثر انداز ہو سکے گا تو یہ امر اور یہ عمل کسی طور بھی قابل قبول نہیں اور نہ ہی ملکی حالات اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ اپوزیشن کو ٹارگٹ بنانے کے بجائے قومی مفادات کو دیکھے۔ اپوزیشن بھی اپنے ذمہ دارانہ کردار کی ادائیگی کے بجائے جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ لہٰذا ملک کو در پیش چیلنجز سے نجات قومی مفادات کے تحفظ اور ادارہ جاتی بحران کے حل کیلئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے اور گرانے اور بنانے کی روش اختیار کرنے کے بجائے صورتحال کو سنبھالا دینے کیلئے کوشاں ہونا چاہئے، اس میں ملک، قوم اور جمہوری کی بقا کا انحصار ہے اور یہی عمل ملک کو خطرات سے نجات دلا کر استحکام کی منزل پر لیجا سکتا ہے۔
اب تک کی صورتحال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے اور ملک کی صورتحال میں محاذ آرائی کے رجحان کا جائزہ لیا جائے تو اس کی بڑی وجہ حکومت میں بیٹھے بعض غیر منتخب اور غیر سیاسی مشیران ہیں جو اپنے جواز اور نوکری کیلئے حکومت کو ایسے ایسے مشورے دیتے نظر آتے ہیں جو ملک کو مسائل سے نکالنے کے بجائے پھنسانے کا باعث بنتے ہیں لہٰذا حکومت کو بھی اپنے ان مشیران سے بچنے اور اپنے سیاسی اور منتخب ذمہ داروں سے مشاورت کرنی چاہئے اور خصوصاً بھارت کی جانب سے آنے والی دھمکیوں اور خصوصاً ایل او سی پر ہونیوالی تیاریوں کے جواب میں حکومت اور اپوزیشن کو ملکر ایسا موثر جواب دینا چاہئے جو ان کے مذموم ایجنڈے اور عزائم کو غارت کرنے کا باعث بنے اس امر میں دو آرا نہیں کہ بھارت کے جارحانہ عزائم کے جواب میں ہمیشہ پاک فوج نے اپنا موثر کردار ادا کیا ہے لیکن نئی پیدا شدہ صورتحال میں بوکھلاہٹ کے شکار بھارت کے کسی بھی اقدام کے جواب میں قوم کے اپنی فوج کی پشت پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب سیاسی محاذ پر انتشار، خلفشار کا خاتمہ اور اتحاد و یکجہتی کی فضا ہو کیونکہ بھارت جیسے کمینے دشمن کا مقابلہ پاکستان کی بہادر مسلح افواج کے ساتھ پاکستان کے باشعور عوام کی تائید سے ہی ہو سکتا ہے۔ جس کیلئے حکومت اور اہل سیاست کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔