اسلام آباد: ( روزنامہ دنیا) وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ اور تخفیف غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ سونے کی چوڑیاں پہنے گاڑیوں سے اتر کر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا وظیفہ وصول کرنے والوں کو فہرست سے نکالنے میں کئی مہینے لگے۔ انہوں نے کہا میں نے کئی مہینے بار بار برقع پہن کر بی آئی ایس پی مراکز کا دورہ کیا اور شدت سے محسوس کیا کہ اس فنڈ سے غیر مستحق لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے مستحق خاندانوں کے لیے مالی امداد کے پروگرام بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ حاصل کرنے والے آٹھ لاکھ 20 ہزار 165 غیر مستحق افراد کو فہرست سے نکالنے کی منظوری دی ہے۔ کابینہ کی شکر گزار ہوں کہ میری تجاویز کو مانا گیا۔
اپنے ٹویٹ میں ثانیہ نے غیر مستحق قرار دئیے گئے افراد سے متعلق اعداد و شمار کا تجزیہ بھی پیش کیا اور بتایا کہ حکومت کو سالانہ 16 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ پروگرام سے مستفید ہونے والوں میں ایک لاکھ 53 ہزار 502 افراد ایسے ہیں جنہوں نے ایک بار بیرون ملک سفر کیا۔ ایک لاکھ 95 ہزار 364 افراد کے خاوند یا بیوی ایک مرتبہ بیرون ملک سفر کر چکے ہیں۔ دس ہزار 476 افراد ایسے ہیں جو ایک سے زائد مرتبہ بیرون ملک جا چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ 66 ہزار 319 افراد کی بیوی یا شوہر ایک سے زائد مرتبہ بیرون ملک گئے ہیں۔ اسی طرح اس فنڈ سے رقم حاصل کرنے والوں میں سے 692 افراد کے نام پر ایک یا ایک سے زائد گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں۔ 43 ہزار 746 افراد کے خاوند یا بیوی کے نام پر بھی ایک یا ایک سے زائد گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی جانب سے کابینہ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق امداد لینے والے 24 ہزار 546 افراد کا ماہانہ فون بل ایک ہزار سے زائد ہے جبکہ ایک لاکھ 15 ہزار 767 مستفید افراد کے خاوند یا بیوی کے فون کا بل بھی ایک ہزار سے زائد ہوتا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق 666 افراد اور 580 اہل خانہ ایسے ہیں جنہوں نے پاسپورٹ بنوانے کے لیے ایگزیکٹو سنٹرز کا انتخاب کیا۔ امداد لینے والے 36 ہزار 970 خاندانوں کے تین یا اس سے زائد افراد نے شناختی کارڈ بنوانے کے لیے نادرا کے ایگزیکٹو مراکز کا رخ کیا۔ 14 ہزار 370 افراد خود ریلوے، پوسٹ آفس یا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ملازمین ہیں جبکہ ایک لاکھ 27 ہزار 826 امداد حاصل کرنے والے افراد کے اہل خانہ ہیں جو ان اداروں میں ملازمت کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے وزیر اعظم کی معاون خصوصی ثانیہ نشتر نے کہا کہ کئی مہینے لگا کر اس ڈیٹا کا تجزیہ کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ کسی مستحق کا حق نہ مارا جائے، یہ وظیفے انتہائی مستحق افراد کے لیے ہوتے ہیں جن کے پاس دو وقت کا کھانا بھی نہیں ہوتا۔ جن کی کچھ نہ کچھ آمدن ہو ان کے لیے الگ کیٹیگری میں امدادی قرضے وغیرہ دئیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے پاس گاڑی ہے بے شک وہ ٹیکسی ہو یا لوڈ ڈ گاڑی ہو وہ کچھ نہ کچھ کما تو رہا ہے، وظیفے پر حق ان کا ہے جو انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہیں، گاڑیوں سے متعلق تجزیہ کرتے وقت موٹر سائیکلیں گنتی نہیں کی گئیں۔ اسی طرح امداد لینے والے کے بیٹے یا بیٹی کے نام پر موجود گاڑیاں بھی شامل نہیں کی گئیں بلکہ صرف میاں بیوی کی گاڑی شامل کی گئی ہے، کئی مہینے سوچ بچار کے بعد حج اور عمرہ پر بیرون ملک جانے والوں کے نام بھی بیرون ملک سفر کرنے والوں میں شامل کیے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر ان کی رسائی اس حد تک ہے کہ وہ اپنا حج عمرہ کے لیے معاونت تلاش کر سکتے ہیں تو وہ یقیناً بھوک سے نہیں مرتے۔
ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بتایا کہ 20 جنوری سے ڈیسک رجسٹریشن کا آغاز کر رہے ہیں اور اگر فہرست سے نکالے گئے افراد میں کسی کو لگتا ہے کہ اسے غلط نکالا گیا ہے تو وہ ڈیسک رجسٹریشن کے ذریعے دوبارہ شامل ہوسکتا ہے۔