لاہور: (دنیا نیوز) میزبان 'دنیا کامران خان کے ساتھ' نیب آرڈیننس میں حالیہ ترامیم کے خدو خال سامنے آرہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نیب آرڈیننس دراصل ایک میگا این آر او ہے، اور یہ ترامیم ایک میگا این آر او کا روپ دھار رہی ہیں، شاید حکومت کے لئے یہ ایک غیر متوقع پیش رفت ہے، نیب ترمیمی قوانین کے اطلاق میں ابہام سے ایسا لگتا ہے کہ اس وقت نیب کے نامی گرامی کرپشن کیسز کے ملزمان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی لاٹری نکل آئی ہے۔
ماہرین ابھی تک یہ تعین نہیں کر پا رہے کہ ان ترامیم کا اطلاق نئے کیسوں پر، نئے یا پرانے زیر سماعت کیسوں پر بھی ہوگا، اس گومگو کی کیفیت میں بڑے بڑے گھاگ نیب کیسز کا خاتمہ مانگ رہے ہیں اور نیب کے لوگ ہکا بکا اس صورتحال کو دیکھ رہے ہیں۔ ان بڑے گھاگ ملزمان نے ملک کے مہنگے ترین وکلا کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ کروڑوں روپے فیس لینے والے یہ وکیل اب احتساب عدالتوں اور بڑی عدالتوں میں تمام ملزمان کے لئے ریلیف کی درخواستیں دائر کر چکے ہیں، اگر یہی صورتحال رہی تو یہ بڑی مشکل صورتحال ہوگی۔ اس وقت ساری نگاہیں پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں پر ہیں، جہاں یہ معاملات پہنچ رہے ہیں۔ ابھی تک جن کیسز میں ریلیف مانگا گیا ہے ان میں سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا کیس ہے۔ جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کے مرکزی ملزمان بھی ریلیف مانگ رہے ہیں۔ شرجیل میمن ریلیف مانگ رہے ہیں۔
اس حوالے سے مستند قانونی پوزیشن کے بارے جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے یہ آرڈیننس کے ذریعے کیا اس لئے اس پر ہر قسم کی قیاس آرائی ہوسکتی ہے اگر اس کو شروع میں پارلیمنٹ میں لے آتے تو اس قسم کی قیاس آرائی نہ ہوتی۔ یہ واضح ہے کہ اس کا اطلاق ان کیسوں پر بھی ہوتا ہے جو نیب کے پاس ہیں اور وہ نیب سے متعلقہ اداروں میں منتقل ہو جائیں یہ ایف بی آر اور مجاز عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے، اگر نیب کے پاس پبلک آفس ہولڈرز کے خلاف ثبوت ہیں تو وہ کیس عدالت میں چلیں گے حتمی طور پر سپریم کورٹ یہ طے کرے گی کہ کس کو فائدہ ہونا چاہئے اور کس کو نہیں ہونا چاہئے۔