لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان نے اپنے اتحادیوں کو مشکل وقت کے ساتھی قرار دیتے ہوئے ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور اس حوالہ سے براہ راست جہانگیر ترین کو ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ اتحادیوں سے رابطہ کر کے ان کی شکایات کا ازالہ کریں۔
اتحادیوں کی جانب سے مختلف مواقع پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا مگر وہ کھل کر سامنے آنے سے گریزاں رہے اور اب ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جانب سے وزارت چھوڑنے کے اعلان کے بعد دیگر اتحادیوں کو بھی موقع ملا ہے اور وہ کھل کر تحفظات ظاہر کرتے نظر آ رہے ہیں۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اتحادیوں کی جانب سے تحفظات اور شکایات کا اظہار محض شکایات ہیں یا کسی خاص سلسلے کی کڑی اور یہ کہ کیا حکومت اپنے اتحادیوں سے کیے جانے والے وعدے اور معاہدوں پر عملدرآمد کی پوزیشن میں ہے۔ کیا کوئی حکومتی اتحادی حکومت چھوڑ کر اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کر سکتا ہے اور یہ کہ اتحادیو ں کی ناراضی آنے والے وقت میں کسی سیاسی تبدیلی کا اشارہ تو نہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت کے قیام میں اتحادی جماعتوں کا اہم کردار تھا کیونکہ انہیں ایوان میں اکثریت حاصل نہیں تھی لہٰذا اس وقت ہنگامی بنیادوں پر مختلف جماعتوں کے ساتھ وعدے کئے گئے اور انہیں ساتھ ملایا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کیلئے سازگار حالات بننے کے بجائے مزید خراب ہوتے رہے۔ خصوصاً معاشی صورتحال میں ابتری، اپوزیشن کی جانب سے حکومتی کارکردگی کو ٹارگٹ کرنے کے عمل اور احتساب کے حالات نے حکومت کو پھنسا کر رکھا اور اس صورتحال میں حکومت اپنے اتحادیوں پر مناسب توجہ نہیں دے سکی جس کی وجہ سے ان کے درمیان تعاون کا مسلسل عمل قائم نہ ہو سکا ایسی صورتحال میں جب حکومت مخلوط ہو تو اتحادیوں کو ساتھ ملانا ان کے ناز نخرے اٹھانا پڑتے ہیں اور انہیں حصہ بقدر جثہ دینا پڑتا ہے۔
ایم کیو ایم ماضی میں بھی حکومتوں کا حصہ رہنے کی وجہ سے اپنی حیثیت و اہمیت قائم رکھتی ہے اور اسے جو کچھ منوانا ہوتا ہے، اس کاخاصہ تجربہ ہے یہاں تک کہ حکومتی ذمہ داران اور وزیراعظم تک ایم کیو ایم کی لیڈرشپ کے سامنے پیش ہو کر ان کی ہر جائز ناجائز مانتے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے قیام کے وقت ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے کا عمل صرف تحریک انصاف کی کاوش نہ تھی اور نہ ہی بی این پی مینگل جیسی جماعت کو اپنے اہم مطالبات کے ساتھ چلانا حکمران کی اہلیت تھی۔
یہ سارے اتحادی وہ ہیں جن کے بعض ایسے مطالبات بھی ہیں جو حکومت کے بس میں نہیں مثلاً ایم کیو ایم صرف کراچی اور شہروں کے مسائل کو ایشو ضرور بنا رہی ہے مگر اس کے ساتھ ان کے اصل مطالبات میں اپنی تنظیمی و سیاسی اہمیت کی بحالی ہے جس میں وہ اپنے بعض گمشدہ ساتھیوں کی رہائی سمیت دفاتر کی بحالی کے مطالبات بھی پیش کرتی رہی ہے لیکن یہ مطالبہ اتنا سادہ نہیں کیونکہ کراچی میں امن کی بحالی کیلئے سکیورٹی اداروں کی جانب سے ہونے والے اقدامات پر یہ ادارے کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اور نہ ہی ایسا کوئی کمپرومائز کریں گے جو مستقبل میں دوبارہ کراچی میں امن کو متاثر کر سکے لہٰذا حکومت ایم کیو ایم کو وزارت بھی دے سکتی ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے حوالے سے فنڈز کی فراہمی بھی یقینی بنا سکتی ہے کسی حد تک کراچی کی شہری حکومت کے اختیارات میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے لیکن کراچی کے بعض حساس معاملات میں کسی کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں۔
اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی کے سیاسی مطالبات کے حل میں تو پیشرفت ہو سکتی ہے مگر بلوچستان کی حساس حیثیت اور اس حوالہ سے بعض مطالبات حکومت کے بس کی بات نہیں۔ چودھری صاحبان کے ساتھ مرکز میں دو وزارتوں کا وعدہ ہوا تھا مگر مونس الٰہی کی وزارت کے وعدے پر عملدرآمد نہ ہوا اور اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت ق لیگ کو وزارت تو دینا چاہتی ہے مگر بندے اور وزارت کا انتخاب خود کرے گی جبکہ جماعتوں کا استحقاق ہوتا ہے کہ وہ نام خود دیتی ہیں ورنہ پھر وہی ہوتا ہے کہ جو ایم کیو ایم کے حوالہ سے فروغ نسیم کو ملنے والی وزارت پر ہوا ایم کیو ایم خود انہیں اون کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی انہیں اپنے کوٹہ کا حصہ سمجھتی ہے۔ چودھری صاحبان اس لئے بھی کھل کر حکومت کے سامنے نہیں آئے کہ عثمان بزدار کو ان کی گود میں پناہ ملی اور چودھری صاحبان نے یہ دیکھتے ہوئے کہ عثمان بزدار وزیراعظم عمران خان کی کمزوری ہیں انہیں سینے سے لگا لیا کہ اس کے سوا ان کے پاس چارا نہیں تھا۔
جہاں تک جی ڈی اے کا مسئلہ ہے تو جی ڈی اے کے مطالبات سیاسی ہیں۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں وہ حکومت میں تو ہیں مگر ان کی حیثیت و اہمیت نہیں البتہ پیر پگارا اور ان کے ساتھی حکومت کیلئے اب بھی کوئی غیر معمولی صورتحال پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ ایک بات جو کھل کر سامنے آ رہی ہے وہ یہ کہ حکومتی اراکین بھی حکومت سے زیادہ مطمئن نہیں تو اتحادی کیسے ہو سکتے ہیں کیونکہ ماضی میں اتحادیوں اور اپنے اراکین کی خوشی کیلئے بہت کچھ ہوتا رہا ہے۔ جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ اتحادیوں کی ناراضی یا حکومت سے فاصلے کسی منظم کھیل کا حصہ ہیں تو ابھی تک کوئی ایسی بات اور عمل سامنے نہیں آیا جس سے یہ کہا جا سکے کہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی کھیل رچایا جا رہا ہے۔
وفاقی حکومت کے خلاف اگر کوئی منظم سلسلہ شروع ہوا تو مخالفین کا پہلا وار پنجاب پر ہوگا اور پنجاب میں کسی بھی بڑی تبدیلی میں بنیادی کردار چودھری صاحبان اور ق لیگ کا ہوگا۔ یہی وجہ ہے چودھری صاحبان پنجاب میں باوجود حکومتی اتحادی ہونے کے ن لیگ کو کمزور کرنے کے کسی عمل میں فریق نہیں بنے۔ پنجاب میں فارورڈ بلاک کا تجربہ اور کاوش اس لئے کامیاب نہ ہو سکی کہ خود حکومت کے پاس اپنے اراکین کو دینے کیلئے کچھ نہیں تو وہ اپوزیشن ارکان کو کیسے اکاموڈیٹ کرے گی لہٰذا جتنی مایوسی اور بے یقینی کی صورتحال پنجاب میں ہے اتنی مرکز میں نہیں۔ حکومتی اتار چڑھاؤ اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ بجٹ تو موجودہ حکومت ہی پیش کرے گی مگر ستمبر اکتوبر میں حکومت پر سیاسی وار ہو سکتا ہے۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے علاوہ ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ کی عدم حاضری کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔