لاہور: )تجزیہ: سلمان غنی( ترک صدر طیب اردوان کے دورہ اسلام آباد کو علاقائی صورتحال، دو طرفہ اقتصادی، معاشی معاملات، کشمیر کاز اور امہ کو در پیش صورتحال کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ لہذا اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ دو طرفہ اقتصادی معاملات کے نتیجہ میں ترقی کے امکانات کیا ہیں ؟ ترک صدر کے دورہ کے علاقائی صورتحال پر کیا اثرات ظاہر ہوں گے۔ طیب اردوان کو عالم اسلام کے رہنماؤں میں یہ حیثیت حاصل ہے کہ وہ عالم اسلام کے ایشوز خصوصاً کشمیر کاز پر بے دھڑک انداز میں، جرأت مندانہ مؤقف کا اظہار کرتے رہے ہیں اور اہم ایشوز پر پاکستان کے کندھے سے کندھا جوڑے نظر آتے ہیں۔ لہٰذا اس تناظر میں ان کے دورہ کو دیکھنا ہوگا اور یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ کیا کوئی نیا اقتصادی بلاک تشکیل کے مراحل میں ہے ؟ ابھی بظاہر تو کچھ وثوق سے کہنا مشکل ہے۔ مگر لامحالہ طور پر صورتحال اس جانب کھنچتی چلی جا رہی ہے۔
امہ کے تمام بڑے مسائل اور پر آشوب دور کو دیکھا جائے تو ستم ظریفی یہ ہے کہ مغرب اپنی جگہ مگر اقوام مسلم اپنے ہی برادر ممالک کے ہاتھوں تہہِ تیغ ہو رہے ہیں۔ لیبیا ہو، شام ہو، یمن ہو، عراق ہو، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطین یا بھارت کے ہاتھوں اہل کشمیر، آخری دونوں کے سوا تمام علاقوں میں خونِ مسلم کی ارزانی انہی کے اپنے کلمہ گو بھائیوں کے ہاتھوں ہو رہی ہے۔ لازمی طور پر اس قتل و غارت گری کا ایک پسِ منظر ہے اور اس میں شیعہ عالم اسلام اور سنی عالم اسلام کا مسلکی جھگڑا ہے۔ مگر اس سارے خطے میں غیر جمہوری بادشاہتیں کسی نہ کسی کے اشارے پر متحارب رہتی ہیں اور مغرب سے اپنے لیے رعایتیں ڈھونڈتی ہیں۔ یہ تمام صورتحال مشرقِ وسطیٰ کو خون سے رنگین تر کر دیتی ہے اور مشرقِ وسطیٰ سے باہر کے مسلم ممالک خصوصاً پاکستان، ملائیشیا اور ترکی اس صورتحال سے خاصے ڈسٹرب ہو جاتے ہیں کیونکہ عالمی فورمز پر اقوام مسلم اپنے تمام تر پوٹینشل کے باوجود کسی شمار میں نہیں ہیں۔ کہیں بھی کوئی فیصلہ مسلم امنگوں اور خوابوں کے مطابق نہیں ہو رہا۔
یہ اسی کا طرفہ تماشا ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال مسلم قومیں بھی اہل عالم کے سامنے ذلیل و رسوا ہیں۔ ترکی اور ملائیشیا اس صورتحال میں معاشی طور پر مستحکم ہو کر سر اٹھا کر جینے کے قابل ہو چکے ہیں اور معاشی فرنٹ پر ملت اسلامیہ کی سربراہی کے طور پر اپنے آپ کو تیار کر چکے ہیں۔ پاکستان قومی اور نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایسی تمام اقوام کیلئے ایک مثال بن چکا ہے۔ جن کا دفاع کمزور ہے یا جنہیں مغرب کی بلیک میلنگ کا سامنا ہے۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ کی سائیڈ لائن ملاقاتوں کا اصل حاصل یہ خیال تھا کہ دو بڑی معاشی قوتیں ترکی، ملائیشیا اور بڑی فوجی قوت پاکستان مل کر امت کا مقدمہ لڑیں اور ایک نیا معاشی مسلم ورلڈ آرڈر تشکیل دیں۔ اس پر کام شروع ہوا۔ ملائیشیا میں سربراہ اجلاس ہوا مگر ملت اسلامیہ کا روحانی مرکز سعودی عرب اپنی چودھراہٹ چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہو گیا اور نتیجہ دست نگر پاکستان کے وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کو صفائیاں پیش کر کے قائل کرتے رہے مگر دینے والے ہاتھ نے لینے والے ہاتھ کو مجبور کیا کہ سعودی مفادات کے تابع رہ کر فیصلے کرو۔
ملائیشیا سمٹ کے وقت پیدا ہونے والے سفارتی مغالطے اور پاکستان کے پیچھے رہ جانے کو ترکی میں بھی پاکستان کی مجبوری سمجھا گیا۔ دونوں قوموں کے پس منظر میں مولانا روم اور حضرت اقبال کے نظریات ہیں اور جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال کو پاکستان میں بھی وہی مقام حاصل ہے جو اہل ترکی بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کو دیتے ہیں۔ بہرحال جذبات اور رومانس کی اپنی دنیا ہے اور حقیقت پسندی کے معاملات اتنے ہی تلخ اور کڑوے ہوتے ہیں۔ پاکستان کو اگر اس نئے اقتصادی بلاک میں ایک زبر دست کردار ادا کرنا ہے تو پھر معاشی طور پر اسے غیروں اور اپنوں (سعودی عرب) کی بالادستی کے اثر سے نکلنا ہوگا۔ وگرنہ خوددار اور خود نگر پاکستان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ حضرت اقبال نے شاید اس صورتحال کیلئے کہا تھا
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے مر نہ سکے