کراچی: (دنیا نیوز) شہر قائد کے علاقے کیماڑی میں پراسرار گیس کے اخراج کے بعد ہونے والی 14 ہلاکتوں کی وجہ سویا بین ڈسٹ الرجی کو قرار دیدیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق دو روز قبل شہر قئد میں پر اسرار گیس کے باعث چھ ہلاکتیں ہوئیں تھیں، یہ تعداد دو روز کے دوران 14 ہو گئی ہیں۔ جامعہ کراچی کی فرانزک سائنس لیبارٹری کے ماہرین نے ایک رپورٹ تیار کی ہے۔
جامعہ کراچی کی فرانزک سائنس لیبارٹری کے ماہرین کی رپورٹ میں ہلاکتوں کی وجہ سویا بین ڈسٹ الرجی قرار دی گئی ہے جبکہ رپورٹ کی تیاری کے دوران جاں بحق اور متاثرہ افراد کے خون اور پیشاب کے نمونوں کے ٹیسٹ بھی لیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: کیماڑی میں پراسرار گیس کا اخراج، مرنے والوں کی تعداد 14 ہوگئی
انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیو لوجیکل سائنسز کے ماہرین نے ٹیسٹ کئے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی پورٹ پر لنگر انداز جہاز پر موجود سویا بین کی ڈسٹ الرجی نے لوگوں کو متاثر کیا، ابتدائی رپورٹ کمشنر کراچی افتخار شلوانی کو بھجوادی گئی۔
دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ حکومت کے مشیر ماحولیات بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جامعہ کراچی نے رپورٹ تیار کر کے کمشنر کراچی کو ارسال کردی ہے۔
Preliminary report has been submitted by experts at Khi Uni which suggests that Keamari incident happened due to over exposure of soybean dust which is known to have also caused similar incidents in other parts of the world. This soybean is in a shipment docked at Khi Port
— SenatorMurtaza Wahab (@murtazawahab1) February 18, 2020
پیپلز پارٹی کے رہنما مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ کیماڑی میں زہریلی گیس سے متعلق ابتدائی رپورٹ مرتب کر لی گئی، اس کے مطابق ہلاکتیں سویا بین ڈسٹ کی وجہ سے ہوئیں، سویا بین ڈسٹ کے واقعات دنیا کے دیگر مقامات پر بھی ہوچکے ہیں۔ سویا بین کی کھیپ کراچی بندرگاہ پر موجود ہے۔
اُدھر ڈاکٹر عطا الرحمان کا کہنا ہے کہ 90 فیصد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اموات کی وجہ سویابین ڈسٹ ہے۔ ہائیڈو سلفائیڈ گیس یقیناً نہیں ہے کیونکہ اس کی بو پہچان لی جاتی ہے۔
دنیا نیوز کے پروگرام ‘’ دنیا کامران خان کیساتھ’’ میں کراچی کے علاقے کیماڑی میں مبینہ گیس کے پھیلنے اور ہلاکتوں پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات دنیا کے کئی دیگر ممالک میں ہو چکے ہیں۔ سپین میں 1981ء سے 1987ء کے درمیان 20 اموات ہوئیں جبکہ ایسے واقعات اٹلی، امریکا اور فرانس میں بھی رونما ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ ایسی اموات کے واقعات میں سویا بین ایک کامن فیکٹر تھا۔ سویا بین میں پولن نما ڈسٹ سے الرجی پیدا ہوتی ہے۔ یہ ڈسٹ پھیل جائے تو بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر عطا الرحمان نے کہا کہ سویابین ڈسٹ سانس کی بیماری میں مبتلا افراد کو متاثر کرتی ہے۔ متاثرین کے نمونوں میں بہت الرجک ری ایکشن موجود ہے۔ 90 فیصد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اموات کی وجہ سویابین ڈسٹ ہے۔ ہائیڈو سلفائیڈ گیس یقیناً نہیں ہے کیونکہ اس کی بو پہچان لی جاتی ہے۔
انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ سویا بین کے جہاز کو کراچی سے فوری طور پر 10 میل دور کر دیا جائے۔ سویابین کو کنٹینر سے نکالنے کا ایک عالمی مروجہ طریقہ کار موجود ہے۔ سویا بین کو جہاز سے بالکل کور کرکے اور ٹیوب میں ڈال کر نکالا جاتا ہے۔ سویا بین نکالنے والے مزدوروں کو ماسک اور مخصوص لباس پہننا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جینیاتی طور پر مختلف ہوتے ہیں لہٰذا کیمیائی اثر بھی مختلف ہوتا ہے۔ سویابین ڈسٹ کا اثر اس کے مرکبات سے الرجی رکھنے والوں پر ہوتا ہے۔ جو لوگ اس وقت ہسپتالوں میں ہیں ان کو اینٹی الرجی کمپاؤنڈ دینا چاہیے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سویابین کے علاوہ 10 مرکبات ہیں جن سے بہت احتیاط برتنی چاہیے۔ ایسے مرکبات ترسیل میں نہایت احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مضر صحت ایسے مرکبات کی لسٹ بین الاقوامی طور پر دستیاب ہے۔ کیمیائی معاملات کا تعلق نیشنل سیکیورٹی سے بھی ہے، بہت احتیاط رکھنی چاہیے۔
دریں اثناء زہریلی گیس کے معاملے کو سویابین کارگو سے جوڑنے پر آل پاکستان سولونٹ ایکسٹریکٹر ایسوسی ایشن نے شدید رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سویابین کارگو جہاز کو زہریلی گیس کی وجہ قرار دینا بے بنیاد ہے۔
اے پی ایس ای اے کا کہنا ہے کہ سویابین کے معاملے کا جائزہ لیا جائے تو حقیقت واضح ہو جائے گی، جہاز میں امریکا سے درآمد شدہ سویابین موجود تھا، سویابین اعلیٰ کوالٹی کا حامل اور امریکی وزارت زراعت سے تصدیقی شدہ تھا۔
پر آل پاکستان سولونٹ ایکسٹریکٹر ایسوسی ایشن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان پہنچنے پر ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن نے سویابین کا جائزہ لیا تھا، اے ڈی پی پی نے سویابین کو کلیئر قرار دیا تھا۔
اے پی ایس ای اے کا کہنا ہے کہ ڈی پی پی نے افلیٹوکسین لیول چیک کرنے کے بعد سویابین ریلیز کرنے کی اجازت دی۔ سویابین ایک زرعی جنس ہے جس میں کوئی کیمیکل نہیں ہوتا۔ اس لیے سویابین کارگو کے باعث زہریلی گیس پھیلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آل پاکستان سولونٹ ایکسٹریکٹر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ پہلا مریض تب ہسپتال داخل ہوا تھا جب کارگو سے سویابین آف لوڈ کرنا شروع بھی نہیں ہوا تھا، زہریلی گیس کے معاملے کو سویابین کارگو سے جوڑنا ناقابل یقین ہے، سویابین کارگو آف لوڈ کرنے والے 400 افراد میں سے کوئی ایک بھی زہریلی گیس سے متاثر نہیں ہوا۔
اے پی ایس ای اے کا کہنا ہے کہ پانچ سال سے ہر ماہ پانچ جہاز سویابین لے کر کراچی پورٹ میں لنگر انداز ہوتے ہیں، آج تک کسی بھی کارگو جہاز کے ساتھ اس طرح کی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، 18 فروری کی ڈی پی پی کے اہلکاروں نے دوبارہ جہاز کا جائزہ لیا اور گیس کو آثار نہیں ملے، ہماری ایسوسی ایشن متاثرہ افراد کے گھر والوں سے ہمدردی کا اظہار کرتی ہے۔
اس سے قبل کراچی کے علاقے کیماڑی میں پراسرار گیس کے اخراج سے 14 افراد جاں بحق ہوگئے۔ فوکل پرسن محکمہ صحت سندھ ڈاکٹر ظفر مہدی نے ہلاکتوں میں اضافے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا دو روز میں 14 اموات ہوئیں۔
ادھر وزیراعلی سندھ نے گزشتہ رات ہنگامی اجلاس اور کیماڑی کا دورہ بھی کیا، مریضوں کے اہلخانہ سے بات چیت کی اور ہسپتال انتظامیہ کو بہترین علاج کی ہدایت کی۔ علاقہ مکینوں نے احتجاج سڑک بند کر دی، مظاہرین نے جیکسن مارکیٹ کے باہر دھرنا دے دیا اور مطالبہ کیا کہ گیس سے ہلاکتوں کے معاملے کی تحقیقات کی جائے، مرنیوالے افراد کے اہلخانہ کو معاوضہ فراہم کیا جائے۔
صوبائی وزیر اطلاعات سندھ ناصرحسین شاہ کا کہنا تھا کہ رپورٹس آنے سے قبل حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ زہریلی گیس کہاں سے آرہی ہے، سندھ حکومت اپنا کردار ادا کر رہی ہے، تمام ہسپتالوں میں بھی ایمرجنسی نافذ ہے، سندھ حکومت ایسا لائحہ عمل تیار کر رہی ہے کہ تمام کیمیکلز کمپنیز کو شہر سے دور شفٹ کیا جائے گا۔
ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ زہریلی گیس کے حوالے سے تمام نمونے لے لئے گئے ہیں، زہریلی گیس سے 14 کے قریب اموات اور 250 سے زائد افراد متاثر ہیں، سندھ حکومت نے اپنی پوری توجہ شہریوں کی جان بچانے اور زہریلی گیس کے اخراج کا پتہ لگانے میں مرکوز کی ہوئی ہے۔
اس سے قبل کراچی کے علاقے کیماڑی میں پراسرار گیس کے اخراج سے 14 افراد جاں بحق ہوگئے۔ فوکل پرسن محکمہ صحت سندھ ڈاکٹر ظفر مہدی نے ہلاکتوں میں اضافے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا دو روز میں 14 اموات ہوئیں۔
ادھر وزیراعلی سندھ نے گزشتہ رات ہنگامی اجلاس اور کیماڑی کا دورہ بھی کیا، مریضوں کے اہلخانہ سے بات چیت کی اور ہسپتال انتظامیہ کو بہترین علاج کی ہدایت کی۔ علاقہ مکینوں نے احتجاج سڑک بند کر دی، مظاہرین نے جیکسن مارکیٹ کے باہر دھرنا دے دیا اور مطالبہ کیا کہ گیس سے ہلاکتوں کے معاملے کی تحقیقات کی جائے، مرنیوالے افراد کے اہلخانہ کو معاوضہ فراہم کیا جائے۔
صوبائی وزیر اطلاعات سندھ ناصرحسین شاہ کا کہنا تھا کہ رپورٹس آنے سے قبل حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ زہریلی گیس کہاں سے آرہی ہے، سندھ حکومت اپنا کردار ادا کر رہی ہے، تمام ہسپتالوں میں بھی ایمرجنسی نافذ ہے، سندھ حکومت ایسا لائحہ عمل تیار کر رہی ہے کہ تمام کیمیکلز کمپنیز کو شہر سے دور شفٹ کیا جائے گا۔
ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ زہریلی گیس کے حوالے سے تمام نمونے لے لئے گئے ہیں، زہریلی گیس سے 14 کے قریب اموات اور 250 سے زائد افراد متاثر ہیں، سندھ حکومت نے اپنی پوری توجہ شہریوں کی جان بچانے اور زہریلی گیس کے اخراج کا پتہ لگانے میں مرکوز کی ہوئی ہے۔