اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے بچوں پر تشدد روکنے کے بل پر وزارت قانون سے 12 مارچ تک جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے کہا بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست پر فیصلہ اگلی تاریخ پر کر دینگے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شہزاد رائے کی بچوں کو جسمانی سزا پر پابندی کیلئے درخواست پر سماعت کی۔ شہراد رائے نے موقف اپنایا کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ بچوں کو تشدد سے محفوظ رکھنے کیلئے حکومت کو اقدامات کی ہدایت کی جائے۔ وزارت داخلہ نے کہا بچوں پر تشدد کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شکایت تب ہوتی ہے جب کوئی بڑا نقصان ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا بچوں پر تشدد روکنے کے لیے قانون سازی کا کیا بنا ؟ یہ تو انسانی حقوق کا کیس ہے۔ شیریں مزاری نے کہا وزارت قانون نے کہا کہ یہ آپ کا دائرہ اختیار نہیں، ہماری وزارت بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست کی مکمل حمایت کرتی ہے، وزیر اعظم نے بھی بچوں پر تشدد روکنے کی مکمل حمایت کی،وزارت داخلہ نے بچوں پر تشدد روکنے کا بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا، اسلامی نظریاتی کونسل نے بل پر اعتراض کر دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا اسلام تو انسان کی عظمت کی تعلیمات دیتا ہے تشدد کی نہیں۔
وزیر انسانی حقوقی شیریں مزاری نے کہا کابینہ نے بل کو منظور کرلیا، وزرات قانون نے کہا کہ یہ بل وزارت انسانی حقوق نہیں بلکہ داخلہ کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا افسر مقرر کیا جائے جو بتائے بل پارلیمنٹ کیوں نہیں بھیجا گیا ؟ قانون نہ بھی ہو تو بچوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا جاسکتا، جسمانی سزا دینے کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہونا چاہئے۔ عدالت نے سماعت 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ وزارت تعلیم نے اسلام آباد میں جسمانی سزا پر پابندی لگا دی ہے، بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست کی حمایت کرتے ہیں۔ گلوکار شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ بچوں کو مارنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا جنسی ہراساں کرنا، بل کا قومی اسمبلی میں جانا بہت بڑی کامیابی ہے۔