لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ایک جانب کورونا کا طوفان اور دوسری جانب پریشان حال عوام مہنگائی کے رجحان سے دوچار آہ و بکا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے عام آدمی پر مہنگائی کا دباؤ نہ لادنے کے واضح اعلانات کے باوجود عملاً مہنگائی کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے اور عام آدمی پر عرصہ حیات تنگ ہو رہا ہے۔ اسے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑتے نظر آ رہے ہیں اور حالات کے رحم و کرم پر پڑے عام آدمی کو کچھ سجائی نہیں دے رہا۔ حکومت کی جانب سے آٹے اور چینی کی قیمتوں میں کمی کے اعلان کے باوجود عملاً صورتحال یہ ہے کہ آٹے، چینی کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا ہے۔ چینی کی قیمت میں دو اور آٹے کی قیمت میں چار روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ یوٹیلیٹی سٹورز پر گھی 39 روپے اور کوکنگ آئل 27 روپے لٹر مہنگا کر دیا گیا۔
منافع خور اور ذخیرہ اندوز بے خوف ہوچکے ہیں جنہوں نے کورونا کے خوف میں مبتلا عوام پر پھر مہنگائی کے کوڑے برسانے شروع کر دئیے ہیں جس سے وزیراعظم عمران خان کے احکامات بھی ہوا میں اڑتے نظر آ رہے ہیں۔ اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ اب جبکہ بڑے شادی گھر، ہوٹلز اور دیگر کمرشل مقامات پر سرگرمیاں محدود ہو گئی ہیں اور اشیائے ضروریات کی کھپت میں بھی نمایاں کمی ہو رہی ہے تو ذخیرہ اندوز منافع خور کیونکر دندناتے نظر آ رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ حکومتی اعلانات پر عملدرآمد نہیں ہو پا رہا اور آخر کیوں مہنگائی کا جن قابو نہیں آ رہا۔ طلب اور رسد کے پیمانے پر عمل پیرا ہونے کی بجائے اندھی دولت کمانے کی روش پر کیونکر قابو نہیں پایا جا رہا، حقائق یہی ہیں کہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کو حکومت کی نہیں تو کہیں نہ کہیں سے کوئی آشیرباد ضرور حاصل ہے ۔ خصوصاً انتظامی مشینری جس نے آٹا، چینی، چاول، گھی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر نظر رکھنی ہوتی ہے۔
بدقسمتی یہی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں کو ان کی کھلی تائید و حمایت حاصل ہوتی ہے کیونکہ انتظامی مشینری کی آنکھیں کھلی ہوں اور ان کا فعال کردار نظر آ رہا ہو تو منافع خوروں میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ دن دیہاڑے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ سکیں۔ آٹے اور چینی کے بحران پر رپورٹس حکومت کو ملنے کے باوجود آٹے، چینی کا بحران اور مہنگائی کا طوفان برپا کرنے والے بے نقاب نہیں ہوئے۔ لگتا یوں ہے عوام کو لوٹنے اور بحران پیدا کرنے والوں کو خدا کا خوف ہے اور نہ ہی وہ حکومت کے حوالے سے الرٹ یا پریشان ہیں۔ انہیں صرف اور صرف اپنی تجوریاں بھرنے سے غرض ہے اور اس کیلئے وہ جو ہو سکتا ہے کر گزرتے ہیں۔ یہ تمام صورتحال واضح طور پر بتا رہی ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ جیسی بدقسمت گھڑی میں بیڈ گورننس بھی خوفناک وبا بن چکی ہے۔ کورونا کی وبا کے ساتھ ہی میڈیکل سٹور والوں نے N-95 ماسک بے رحمی سے غائب کر دئیے، انتظامیہ بھنگ پی کر سوئی رہی۔ اس کے بعد عوام نے سینی ٹائزر خریدنے کا فیصلہ کیا تو اس کی قلت پیدا ہو گئی اور 150 روپے والا سینی ٹائزر اب 4 سو سے 5 سو کے لگ بھگ مل رہا ہے۔
اس صورتحال میں جب لوگ گھروں میں اپنے آپ کو محدود کر رہے ہیں تو لامحالہ طور پر بنیادی ضروریات زندگی کا بحران سامنے نظر آ رہا ہے ۔ پینے کا صاف پانی، آٹا، گھی، دالیں، چاول اورچینی کے تمام دکاندار اس صورتحال کا بہت فائدہ اٹھائیں گے اور یوں جو غریب کورونا سے بچ جائے گا وہ بھوک سے مر جائے گا۔ ستم تو یہ ہے عوام کورونا کے خوف اور غربت کے بوجھ میں احتیاط تو شاید کر سکیں مگر بازاروں اور منڈیوں میں لٹنے سے کیسے بچیں ؟ وفاق اور صوبے میں حکمرانوں سے عوامی بھلائی کی امید ہے اور نہ ہی بے حس سماج کے امرا اور بزنس مینوں سے خیر کی توقع، یہی وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ ریاست سے بیزار ہو جاتے ہیں، پھر پریشان حال عوام اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ ﷲ پاکستان کو اس بدقسمت گھڑی سے بچائے۔