لاہور: (اخلاق باجوہ، حسن رضا) گوجرانوالہ میں پولیس ویلفیئر فنڈ اور غیر قانونی ہاؤسنگ سکیم کے مبینہ سکینڈل کی تحقیقات کے دوران ہی آر پی او طارق عباس قریشی کو عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا۔
گوجرانوالہ میں مبینہ غیر قانونی ہاؤسنگ سکیم کے معاملے پر سپیکر پنجاب اسمبلی نے تحریک انصاف کی رکن کی تحریک التوا کے جواب میں صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کی سربراہی میں پنجاب اسمبلی کی سپیشل کمیٹی تشکیل دی تھی۔ صوبائی وزیر قانون نے اس پر سید یاور عباس بخاری کی سربراہی میں سب کمیٹی تشکیل دی۔ پنجاب اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی سب کمیٹی نے اس حوالے سے تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے آر پی او گوجرانوالہ کو سوالنامہ دیا جس پر آر پی او نے کمیٹی کے روبرو پیش ہوکر اپنا جواب اور موقف پیش کیا۔
آر پی او نے کمیٹی کو بتایا کہ ایم او یو سائن کرنا خلاف قانون نہیں اور نہ ہی وہ سکیم غیر قانونی ہے اس کا باقاعدہ این او سی حاصل کیا گیا۔ بطور آر پی او میرا فرض ہے کہ میں پولیس ملازمین کی ویلفیئر کے لیے اقدامات کروں۔ اس زمین کی خریداری میں پولیس ویلفیئر فنڈز سے پیسے ادا نہیں کئے گئے ۔آر پی او نے کمیٹی کے روبرو گوجرانوالہ پولیس ویلفیئر کے فنڈز کی بھی تفصیلات پیش کیں جس میں کوئی بھی بے ضابطگی سامنے نہ آئی۔کمیٹی نے انکے جواب پر اطمینان کا اظہار کیا اور انھیں مزید دو سوالات کے جواب دینے کے لئے 19 مارچ کو دوبارہ پیش ہونے کی ہدایت دی۔
دوران تحقیقات بھی معاملے میں تاحال کچھ ثابت نہیں ہوا تھا۔ سب کمیٹی نے آر پی او گوجرانوالہ سے سکیم کا این او سی اور ایفی ڈیوٹ مانگا تھا۔ آر پی او گوجرانوالہ نے دوران تحقیقات کمیٹی کو سب معلومات مہیا کیں۔ کمیٹی نے بھی آر پی او گوجرانوالہ کے ایماندار ہونے کی تعریف کی۔ کمیٹی نے 19 مارچ کو آر پی او سے مزید دو سوالات کے جواب مانگے تھے۔ کورونا وائرس کے خدشے کے باعث 19 مارچ کی کمیٹی کی میٹنگ منسوخ کر دی گئی۔ کمیٹی کی سفارشات کے بغیر ہی آر پی او کا تبادلہ کئی سوالات کو جنم دے گیا۔
ذرائع کے مطابق گجرات میں چودھری برادران اپنا اثرورسوخ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے، یہاں پر وہ مبینہ طور پر من پسند ڈی پی او تعینات کروانا چاہتے تھے تو اس وقت کے آئی جی پنجاب نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ یہاں پر میرٹ اور قابلیت کو مد نظررکھتے ہوئے افسر تعینات کیا جانا چاہیے لیکن سابق آئی جی کیپٹن ریٹائرڈ عارف نواز کی بات کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔ ڈی پی او ناصر سیال کی تعیناتی پر پنجاب کے سینئر افسروں کو شدید تحفظات تھے لیکن مجبوری کے باعث انہیں تعینات کر دیا گیا اور وزیراعلیٰ بھی اس سارے معاملات پر خاموش ہی رہے، یہاں کے علاقہ مکینوں کی جانب سے بھی یہ مطالبات کئے گئے کہ یہاں پر میرٹ اور قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے ایس ایچ اوز، ڈی پی اوز، کمشنرز، آر پی اوز تعینات کئے جائیں تاکہ تھانہ کلچر میں تبدیلی آسکے اور کسی بھی جگہ سیاسی مداخلت نہ ہواور نہ ہی کسی کو تنگ کیا جائے۔
اس حوالے سے مسلم لیگ ق کے ہی ایک وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ کام نہیں ہو رہے تھے، مسائل بڑھ رہے تھے تو افسران تبدیل کروائے ہیں، اس حوالے سے مسلم لیگ ق کے ترجمان کی جانب سے یہ موقف دیا گیا کہ ہم صرف میرٹ اور قانون کے مطابق سب کام کرتے ہیں، اس پورے ریجن میں کسی کے تبادلے میں مداخلت نہیں کی، جو بھی کیا سرکار نے اپنے مطابق کیا ہوگا۔