ذخیرہ اندوزی کے خلاف آرڈیننس حکومت کیلئے بڑا امتحان

Last Updated On 18 April,2020 11:52 am

لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ تجوریاں بھرنے کے رجحان کے خاتمے کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے آرڈیننس کی منظوری کے عمل کو ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول اور مصنوعی قلت کے خلاف اہم اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔ طلب و رسد کی بنیاد پر مخصوص عناصر اپنے مذموم ایجنڈا پر گامزن ہوتے ہوئے نہ صرف اشیاء کی قلت پیدا کرتے ہیں بلکہ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے عوام کی جیبیں کاٹ کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، بدقسمتی سے اس عمل سے حکومتیں اور انتظامی مشنری نبردآزما نہیں ہو پاتیں۔

دیکھنا ہوگا یہ آرڈیننس کس حد تک موثر ہوتا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کی گرپ ختم ہو پائے گی، آرڈیننس ملک کو درپیش آٹا، چینی بحران اور اس کے نتیجہ میں قیمتوں میں آنے والے طوفان کے پیش نظر لایا گیا جس کے براہ راست اثرات حکومت پر ہوئے۔ آٹا، چینی بحران کی رپورٹس سے حکومت کی آنکھیں ضرور کھلیں اور حقیقت یہی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کی جانب سے بھیانک کھیل کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک انتظامی مشنری کی براہ راست یا بلاواسطہ سپورٹ حاصل نہ ہو۔ ذخیرہ اندوز اثرورسوخ کے حامل ہیں جو عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں۔

کبھی حکومت پر دباؤ کے بعد اگر انتظامی مشنری کو اس ضمن میں ہدایات جاری بھی ہوئیں تو اس نے بڑی اور تگڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے اثرو رسوخ نہ رکھنے والے چند لوگوں کی پکڑ دھکڑ کر کے حکومت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن ذخیرہ اندوزی کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ یہ دن بدن مضبوط اور موثر ہوتا رہا اور مسائل زدہ عوام ذخیرہ اندوزوں کے رحم و کرم پر رہے اور کوئی بھی حکومت ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں رہی۔ آرڈیننس کے نتیجہ خیز ہونے کا امکان اس لئے نظر آتا ہے کہ حکومت ذخیرہ اندوزی کے عمل کو بھگت چکی ہے اور اس میں کسی حد تک ان کے ذمہ داران کے ملوث ہونے کے عمل نے اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچایا ہے لہٰذا حکومت کے اندر آٹا،چینی، چاول، دال، گھی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول کے حوالہ سے یکسوئی اور سنجیدگی نظر آئی ہے۔

اگر حکومت اس میں پچاس فیصد بھی کامیاب ہوتی ہے تو اس کے اثرات مہنگائی کے سدباب میں معاون بنیں گے۔ آرڈیننس کے اجرا کے بعد حکومت کا اصل امتحان رمضان المبارک کے دوران ہوگا کیونکہ ہماری بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ایک نظریاتی مملکت اور مسلم معاشرہ ہونے کے باوجود رمضان المبارک میں اشیاء کی قیمتوں میں آگ لگی نظر آتی ہے اور اس میں تھوک اور پرچون فروش اپنے منافع کو کئی گنا بڑھا کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور حکومت رمضان بازاروں پر اکتفا کر کے رہ جاتی ہے۔ رمضان المبارک میں آرڈیننس کے اثرات سے اس کی کامیابی کا پتہ چلے گا۔ حکومت انتظامی مشنری کو نتائج فراہم کرنے کا پابند بنانے میں کامیاب رہتی ہے تو اس کی ساکھ پر آٹے چینی کے بحران سے آنے والے حرف کا ازالہ بھی ہوگا اور اس کی مقبولیت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔