کورونا ازخود نوٹس: وفاقی و صوبائی حکومتوں کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار

Last Updated On 04 May,2020 05:59 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کام کچھ نہیں کیا لیکن ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں، کسی چیز میں شفافیت نہیں، دو روپے کا ماسک ملتا ہے اگر ہول سیل میں خریدا جائے، ان چیزوں پر اربوں روپے کیسے خرچ ہو رہے ہیں؟ نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کیا کر رہے ہیں؟۔

سپریم کورٹ میں کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کٹس پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، کووڈ 19 کے اخراجات کا آڈٹ ہوگا تو اصل بات پھر سامنے آئے گی، ماسک اور گلوز کیلئے کتنے پیسے خرچ کرنے کیلئے چاہیے، تھوک میں 2 روپے کا ماسک ملتا ہے، اربوں کیسے خرچ ہو رہے ہیں، پتہ نہیں یہ چیزیں کیسے خریدی جارہی ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے سیکرٹری صحت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ادارے کیا کام کر رہے ہیں، نہیں بتایا گیا، این ڈی ایم اے کی رپورٹ آئی، اس میں کچھ واضح نہیں۔ سیکرٹری صحت نے کہا وائرس کی دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف شکلیں ہیں، امریکی اور یورپی کورونا وائرس زیادہ خطرناک ہے، وہاں اس خطرناک وائرس سے ہزاروں اموات ہو رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ امریکہ سے ہمارا موازنہ کیوں کر رہے ہیں، امریکہ سے موازنہ بالکل نہ کریں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم سو جائیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کوئی صوبہ پالیسی کے ساتھ نہیں آیا، آپ نے مساجد کھول دیں، تاجر کہہ رہے ہیں آپ نمازیں پڑھائیں ہمیں بھوکا مار دیں، آپ کے معیار الگ الگ ہیں، جس شعبہ سے ڈرتے ہیں اسے کھول دیتے ہیں۔

 سپریم کورٹ نے کہا سندھ حکومت کہتی ہے 150 فیکٹریوں کو کام کی اجازت دیں گے، پنجاب میں 37 صنعتیں کھول دیں، باقی کے ساتھ کیا مسئلہ ہے ؟ اجازت دینے والوں سے پولیس تک، سب کو ہی کچھ دینا پڑتا ہے، جامع پالیسی بنا کر تمام فیکٹریوں کو کام کی اجازت ملنی چاہیئے۔

عدالت نے راستوں کی بندش سے عوامی مشکلات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ٹرکوں میں چھپ کر سفر کیا جا رہا ہے، لوگ اندرون ملک سفر یلئے ہوائی ٹکٹ کے برابر پیسے بھر رہے ہیں، ایک ہفتے میں معاملات حل کرلیں، ورنہ عبوری حکم دیں گے، کام کچھ نہیں کیا لیکن ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں، بظاہر لگتا ہے تمام ایگزیکٹو ناکام ہوگئے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ وفاق، صوبوں میں عدم تعاون کی وجہ غرور اور انا ہے، ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں، کورونا پر یکساں پالیسی بنائی جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا بہتر ہوگا عدالت سیاسی معاملات سیاستدانوں کو ہی حل کرنے دے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کسی سیاسی معاملے میں نہیں پڑیں گے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کیا شہریوں کی اموات پر سوال پوچھنا ہماری آئنی ذمہ داری نہیں ؟ باہر کون کیا کہتا ہے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ذاتی عناد کی وجہ سے وفاق کا نقصان ہو رہا ہے۔ عدالت نے کہا لگتا ہے وفاق اور صوبائی حکومتیں عوام کیخلاف سازش کر رہی ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ایک وزیر کچھ کہہ رہا ہوتا ہے تو دوسرا کچھ کہتا ہے، صدر، وزیراعظم کے ارادے نیک ہونگے لیکن کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

چیف جسٹس نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی رپورٹس پر اظہار عدم اطمینان کیا اور کہا وفاقی حکومت کی پالیسی صرف 25 کلو میٹر تک محدود ہے، کام کرنا ہے تو نیک نیتی اور شفافیت سےکریں، لاہور قرنطینہ سے پیسے لیے بغیر کسی کو جانے نہیں دیا جاتا۔ عدالت نے کہا احتساب کا ایک اور ادارہ بنایا تو کرپشن کی رفتار مزید تیز ہو جائے گی۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کیا گندم غائب کرنے والےانسان کہلائے جا سکتے ہیں ؟ جو زکوٰة اور صدقے کا پیسہ کھا جائیں ان سے کیا توقع رکھیں گے۔ عدالت نے کہا آڈیٹر جنرل کے مطابق زکوٰة اور بیت المال کا پیسہ کرپشن کی نذر ہوگیا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا بیت المال کے فنڈ میں کرپشن نہیں ہوئی، آڈٹ حکام نے 54 اعتراضات عائد کیے تھے، 48 کے جواب آگئے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا جو ریکوری ہوئی کیا یہ کرپشن نہیں تھی ؟ اٹارنی جنرل نے کہا مریض کیلئے مختص جو پیسے استعمال نہیں ہوئے وہ ریکوری میں ڈالے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ خیبرپختونخوا میں صورتحال اچھی نہیں، خیبرپختونخوامیں اموات بڑھ رہی ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا خیبرپختونخوا میں میڈیکل کلینک کھل گئے ؟ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا تمام علاقے کھول دیئے ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا خیبرپختونخوا میں پولیس نے طبی عملہ پر تشدد کیا، کیا خیبرپختونخوا پولیس بے مہار ہے، ڈاکٹر ہوٹلزمیں جا کرمریضوں کا معائنہ کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے حکومت کو کورونا سے متعلق یکساں پالیسی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتے کیلئے ملتوی کر دی۔