لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) بالآخر کورونا وائرس جیسے اہم مسئلہ پر قومی اسمبلی کا اجلاس 11 مئی کو طلب کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اجلاس کے حوالہ سے فیصلہ کیا گیا کہ یہ ایک دن کے وقفہ سے جاری رہے گا اور اجلاس میں کورم کی نشاندہی نہیں ہوگی، اجلاس کو صرف کورونا کی وبا تک محدود رکھا جائے گا۔ اجلاس کیلئے ریکوزیشن 13 مارچ کو مسلم لیگ ن کی جانب سے سپیکر کو جمع کرائی گئی تھی مگر کورونا کی صورتحال اور اس کے اثرات کے باعث اجلاس ممکن نہیں بن رہا تھا۔ بعدازاں اپوزیشن کے بڑھتے دباؤ اور وفاقی وزیر سید فخر امام کی اپوزیشن سے ہونے والی مشاورت کے بعد اجلاس بلانے اور اسے بامقصد بنانے کا فیصلہ ہوا لہٰذا اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ اجلاس کس حد تک بامقصد موثر اور نتیجہ خیز ہوگا۔
پارلیمنٹ کسی بھی جمہوری ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہوتا ہے اور اس ادارے کو بروئے کار لا کر ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس بالادست ادارے کو ملک و قوم کو درپیش مسائل اور مشکلات کے سدباب اور اس حوالہ سے حکومت کیلئے سفارشات کی تیاری کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی، دیوار سے لگانے اور ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے بروئے کار لایا جاتا رہا جس کے باعث اس کی اہمیت میں اضافہ کے بجائے کمی ہوتی چلی گئی۔ یہ سیاسی بدقسمتی رہی کہ اہم فیصلے پارلیمنٹ کے بجائے حکومتی ایوانوں میں ہوتے رہے۔ تحریک انصاف سے توقع تھی کہ وہ پارلیمنٹ کو بروئے کار لائے گی اور اسے اہم ایشوز کو نمٹانے کا ذریعہ بنائے گی لیکن قائد ایوان عمران خان نے بھی اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح پارلیمنٹ کو خاطر میں نہ لانے کا فیصلہ کیا اور اس پر کاربند رہے البتہ اس دور میں کابینہ کے پے در پے اجلاسوں کو اچھی روایت قرار دیا جا سکتا ہے۔
اب جبکہ کورونا جیسے حساس ایشو پر اجلاس بلانے کا فیصلہ ہوا ہے تو بڑا سوال یہ ہوگا کہ اجلاس کس حد تک بامقصد ہوتا ہے اور حکومت اور اپوزیشن مذکورہ اجلاس میں کس حد تک سنجیدگی ظاہر کرتے ہوئے ملک کو درپیش غیر معمولی صورتحال سے نکالنے کیلئے کیا طرزعمل اختیار کرتی ہیں۔ ملک میں کورونا وائرس پر جو قومی اتفاق رائے ایوانوں سے باہر نہ ہو سکا کیا وہ منتخب ایوانوں کے اندر نظر آ سکتا ہے کیونکہ ملک میں معاشی سماجی سرگرمیاں معطل، خوف و ہراس کی فضا طاری ہے۔ پاکستان کورنا کے متاثرہ ممالک میں 48 ویں نمبر پر ہے۔ اسے خدا کا فضل وکرم بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ خطرناک اور جان لیوا وائرس کے نتیجہ میں پاکستان میں ہونے والی اموات اور متاثرین کی تعداد دیگر متاثرہ ممالک سے کم ہے، لاک ڈاؤن کو سمارٹ لاک ڈاؤن میں تبدیل کر کے مختلف شعبہ جات کو کھولا جا رہا ہے۔
دوسری طرف وفاق اور سندھ میں محاذ آرائی نے کورونا کے ایشو کو سیاسی بنانے میں کردار ادا کیا، وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان محاذ آرائی اور تناؤ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سندھ حکومت وفاق سے امداد کی متقاضی تھی اور وفاق سندھ حکومت کی کارکردگی کا ناقد رہا۔ اب اس صورتحال میں جب پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جا رہا ہے تو مشکل صورتحال میں پارلیمنٹ کے اجلاس سے قوم کو بہت سی توقعات ہیں۔ کیا وزیراعظم عمران خان بھی اجلاس میں شریک ہوں گے اور دیگر جماعتوں کے ذمہ داران کی حاضری بھی یقینی بنے گی۔ یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہوگا۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کا کریڈٹ وفاقی وزیر سید فخر امام کو دیاجا سکتا ہے انہوں نے اجلاس سے قبل ہی ماحول کو سنجیدہ بنانے کیلئے اہم نکات پر اتفاق رائے کروایا ہے۔ اب اس حوالہ سے گیند سیاسی جماعتوں کے کورٹ میں ہوگا کہ وہ اس اہم مرحلہ پر اپنا پارلیمانی کردار کیسے ادا کرتی ہیں۔ اگر کورونا سے نمٹنے کیلئے کسی قومی لائحہ عمل پر اتفاق ہوتا ہے تو یقینا اس سے پارلیمنٹ کی اہمیت بڑھے گی۔