سپریم کورٹ: کاروباری سرگرمیاں ہفتہ، اتوار کو بند کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار

Last Updated On 18 May,2020 09:13 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے مارکیٹیں اور کاروباری سرگرمیاں ہفتہ اور اتوار کو بند کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، عدالت نے کراچی کی تمام مارکیٹس بھی کھولنے کی ہدایت کر دی۔

 چیف جسٹس گلزارا حمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے کہا کیا وبا نے حکومتوں سے وعدہ کر رکھا ہے وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آئے گی، کیا حکومتیں ہفتہ اتوار کو تھک جاتی ہیں، کیا ہفتہ اتوار کو سورج مغرب سے نکلتا ہے، ہم تحریری حکم دیں گے ہفتے اور اتوار کو تمام چھوٹی مارکیٹیں کھلی رکھی جائیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا زینب مارکیٹ کھولی جائے، اس میں زیادہ تر غریب لوگ آتے ہیں، زینب مارکیٹ میں لوگوں کو ایس او پیز پر عمل کرائیں، ایس او پیز پر عمل کرانا ہے، لوگوں کو ڈرانا نہیں، تاجروں سے بدتمیزی کرنی ہے نہ رشوت لینی ہے، دکانیں سیل کرنے کے بجائے ایس او پیز پر عمل کرائیں، جو دکانیں سیل کی گئی ہیں انہیں بھی کھول دیں، چھوٹے تاجر کورونا کے بجائے بھوک سے ہی نہ مر جائیں۔

عدالت نے کہا وزارت قومی صحت کی رپورٹ اہمیت کی حامل ہے، جن چھوٹی مارکیٹس کو کھولا گیا وہ کونسی ہیں ؟ کیا زینب مارکیٹ اور راجہ بازار چھوٹی مارکیٹیں ہیں ؟ کیا طارق روڈ اور صدر کا شمار بھی چھوٹی مارکیٹس میں ہوتا ؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا شاپنگ مالز کے علاوہ تمام مارکیٹیں کھلی ہیں۔

چیف جسٹس نے ملک بھر میں شاپنگ مالز کھولنے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے سندھ حکومت سے بڑے شاپنگ مالز کھولنے کے حوالے سے چیف سیکریٹری سندھ کو فوری طلب کر کے ہدایات طلب کرلیں۔ عدالت نے کہا باقی مارکیٹس کھلی ہوں گی تو شاپنگ مالز بند کرنے کا کیا جواز ہے ؟ عید پر رش بڑھ جاتا ہے، ہفتہ، اتوار کو بھی مارکیٹس بند نہ کرائی جائیں، آپ نئے کپڑے نہیں پہننا چاہتے لیکن دوسرے لینا چاہتے ہیں، بہت سے گھرانے صرف عید پر ہی نئے کپڑے پہنتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے استفسار کیا حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز پر کتنا پیسہ خرچ ہوا ؟ ممبر این ڈی ایم اے نے کہا حاجی کیمپ قرنطینہ پر 59 ملین خرچ ہوئے، قرنطینہ مراکز پر اتنا پیسہ کیسے لگ گیا ؟ کیا قرنطینہ مراکز کیلئے نئی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں ؟ اتنی رقم کے بعد بھی 600 لوگ جاں بحق ہوگئے، کوششوں کا کیا فائدہ ؟ ممبر این ڈی ایم اے نے کہا حکومت کی طرف سے صرف 2.5 ارب روپے ملے۔

چیف جسٹس نے استفسار کورونا کے ایک مریض پر اوسطً کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں ؟ 500 ارب مریضوں پر خرچ ہوں تو ہر مریض کروڑ پتی ہو جائے گا، یہ سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے ؟ کیا 25 ارب سے آپ کثیرالمنزلہ عمارتیں بنا رہے ہیں ؟ نمائندہ این ڈی ایم اے نے کہا پوری رقم نہیں ملی، اس میں دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا عوام حکومت کی غلام نہیں ہے، عوام پر حکومت آئین کے مطابق کرنی ہوتی ہے، پاکستان میں غربت بہت ہے لوگ روزانہ کما کر ہی کھانا کھا سکتے ہیں، کراچی پورٹ پر اربوں روپے کا سامان پڑا ہے جو باہر نہیں آ رہا، لگتا ہے کراچی پورٹ پر پڑا سامان سمندر میں پھینکنا پڑے گا، کیا کسی کو معلوم ہے 2 ماہ بعد کتنی بے روزگاری ہوگی ؟ بند ہونے والی صنعتیں دوبارہ چل نہیں سکیں گی، کیا کروڑوں لوگوں کو روکنے کیلئے گولیاں ماری جائیں گی ؟ سنا ہے ہولی فیملی ہسپتال سے لوگوں کو نجی ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ سیکرٹری صحت پنجاب نے کہا اگر مریض منتقل ہو رہے تو یہ ڈاکٹرز کا مس کنڈکٹ ہے۔ عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

Advertisement