لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف بھارتی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، پچھلے تین روز میں 18 کشمیری نوجوانوں کی شہادتیں منظم نسل کشی کی واضح مثال ہے۔ قابض فوج کی بدترین ریاستی دہشت گردی ظاہر کرتی ہے کہ مودی سرکار طاقت کے استعمال سے کشمیریوں کی نسل کشی پر کار بند ہے۔
اس غیر انسانی اور فاشسٹ طرز عمل پر نہ تو دنیا حرکت میں آ رہی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے ادارے آواز بلند کرتے ہیں اور مسئلہ کے بنیادی فریق اور وکیل کے طور پر پاکستان کا کردار بھی محض ٹوئٹس اور مذمتی بیانات سے جانے کیوں آگے نہیں بڑھ رہا ؟ جس پر بڑا سوال یہ کھڑا ہو چکا ہے کہ کیا نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارت کی جانب سے کئے جانے والے اس بھیانک اور خوفناک عمل کے نتائج کیا ہوں گے ؟۔
زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو نظر آ رہا ہے کہ ایک جانب دنیا بھر میں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے انسانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے تو دوسری جانب بھارت کی سفاک حکومت اور فوج جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی لانے کو تیار نہیں اور اس موقع کو غنیمت جان کر جموں و کشمیر کے سیاسی، سماجی اور قومی صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے پے در پے جارحانہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
بھارت کی طرف سے طاقت کے بے دریغ استعمال نے کشمیر کی وادی جنت فشاں کو آتش فشاں بنا دیا اور خصوصاً نوجوان برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے ہر نوجوان برہان وانی بن کر بھارتی تسلط اور اس کے ظلم و استبداد کے خلاف سروں پر کفن باندھے کھڑا ہے اور آج بھارت اور اس کی افواج ہر نوجوان کو برہان مظفر وانی سمجھتے ہوئے اس کی ٹارگٹ کلنگ کرتی نظر آ رہی ہیں۔