لاہور: (دنیا نیوز) سینئر تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی جوں جوں شدت بڑھ رہی ہے ہماری عقل ٹھکانے پر آرہی ہے، وزیر اعظم ہمیشہ متنازعہ پیغامات دیتے آئے ہیں، کوئی ان کو سمجھائے کہ سیدھی سیدھی بات کریں۔
پروگرام تھنک ٹینک کی میزبان سیدہ عائشہ ناز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کبھی ادھر، کبھی ادھر کی باتیں قوم کو کنفیوژ کر رہی ہیں، کوئی کورونا سے مرجاتا ہے، اسے وزیر اعظم کی جواب دہی سے کیا سروکار !، دنیا سے موازنہ نہیں کرنا چاہئے، اس سے لوگوں میں کنفیوژن پھیلتی جا رہی ہے، عوام کو کورونا سے ڈرانے کی ضرورت ہے کنفیوژ کرنے کی نہیں، جہالت کی باتوں سے نکلنا ہوگا۔
روزنامہ دنیا کے ایگزیکٹو گروپ ایڈیٹر سلمان غنی نے کہا کہ وزیر اعظم کو کنفیوژ نہیں ہونا چاہئے، لوگ وزیر اعظم کی بات سنتے ہیں، وزیر اعظم کو لائن آف ایکشن دینی چاہئے، احساس پروگرام کے تحت لوگوں تک پیسوں کی تقسیم اچھی بات ہے لیکن یہ 12000 کب تک چلیں گے، کورونا سے بچنا یا بچانا صرف حکومت کا کام نہیں، سب کو مل کر ایس او پیز پر عمل کرنا اور کروانا ہے، دنیا کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے، وزیر اعظم کنفیوژ نہ ہوتے تو آج عوام کنفیوژ نہ ہوتے۔
ماہر سیاسیات ڈاکٹر سید حسن عسکری نے کہا ہے کہ کورونا کا سدباب حکومت کی ترجیح ہونی چاہئے، حفاظتی اقدامات کو لاگو کروانا چاہئے، وزیر اعظم غیر ضروری بریفنگ لے رہے ہیں، حقیقی معنوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے، اگر کو ئی دکاندار ایس او پیز نہیں مانتا تو اس مارکیٹ کو بند کر دیا جائے کوئی رعایت نہیں برتنی چاہئے، پارک کھولنا اچھی بات نہیں، ان کو بھی نہیں کھولنے چاہئے تھے۔
اسلام آباد سے دنیا نیوز کے بیوروچیف خاور گھمن نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا میں 70 لاکھ افراد متاثر ہیں، 4 لاکھ اموات ہیں، ہمارے پاس کیس کم ہیں، اس وقت وزیر اعظم کو کامیابی یا ناکامی کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا جاسکتا، وائرس نے ابھی چلنا ہے، حکومت کی پالیسی کامیاب ہوتی ہے یا نہیں، عمران خان لاک ڈاؤن کیخلاف ہیں، ان کو کیسز پھیلنے پر جواب دینا پڑے گا۔