لاہور: (تجزیہ:سلمان غنی) کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں تباہ کاریوں کا عمل تمام ایشوز پر غالب آ چکا ہے اور اس بنا پر اسے قومی ایشو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس قومی ایشو سے نمٹنے کیلئے کیا قومی جذبہ اور ولولہ بروئے کار لایا گیا، کیا قومی لائحہ عمل کا تعین ہو سکا، کیا وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس حوالے سے ایک پیج پر نظر آئیں اور انہوں نے مل جل کر ملک و قوم کو درپیش اس چیلنج سے نمٹنے اور اس کے نتیجہ میں پیش آنیوالی مشکلات اور تکالیف کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی پالیسیوں کو عالمی سطح پر ہونیوالی اجتماعی کوششوں سے ہم آہنگ کیا۔ اس حوالے سے کوئی شخص، جماعت، طبقہ یا حکومت واضح رائے نہیں دے پائے گی۔
اب تک کورونا کے حوالے سے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ہم آگے کہاں تک پہنچیں گے اور کہیں بریک لگنے کا امکان ہے بھی یا نہیں۔ یقیناً اس حوالے سے بنیادی ذمہ داری تو حکومت کی تھی اور روک تھام کے حوالے سے حکومتی سنجیدگی قابل تعریف اقدام ہے لیکن یہ سنجیدگی غیر معمولی خوف کی علامت بن جائے تو زیادہ سنگین صورتحال کا باعث ہو سکتی ہے۔ لاک ڈاؤن کا عمل جو احتیاطی تدابیر کے طور پر اپنایا گیا تھا ملک بھر میں اب اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھوک افلاس کے مارے لوگوں کی کفالت ان کیلئے روٹی دال کے بندوبست اور فلاح و بہبود کیلئے اقدامات پر حکومتی کردار کو مثال قرار نہیں دیا جا سکتا، شروع میں احساس پروگرام میں 12 ہزار روپے کی تقسیم کے عمل سے متاثرین کو کچھ نہ کچھ حوصلہ تو ملا لیکن اب نئی صورتحال میں یہ 12 ہزار روپے کی رقم کس طرح غریب گھرانے کیلئے آسرا بن سکتی ہے۔ اگر آج کی صورتحال میں دنیا میں غربت جہالت پسماندگی پر نظر دوڑائی جائے تو دو ارب سے زائد افراد اس کا شکار ہیں اور دوسری جانب کورونا وائرس کے نتیجہ میں دنیا کو ممکنہ طور پر قحط سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ وبا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے تو پھر ہمیں اس کے اثرات سے نمٹنے کا بندوبست بھی کرنا ہے اور یہ کام حکومت اکیلے نہیں کر سکتی۔ حکومتیں اب تک عوام کو لاک ڈاؤن کے خوف میں مبتلا رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ حکومت اور عوام دونوں کو اس خوف سے باہر آنا پڑے گا اور کورونا کے باعث چیلنجز سے نمٹنے کیلئے عزم اور حوصلہ کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور خصوصاً حکومت کو صوبائی حکومتوں اور اہل سیاست سے ملکر کورونا وائرس کو غیر معمولی خوف کی علامت بنانے اور لاک ڈاؤن کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے اس حوالے سے ایک واضح اور قومی پالیسی مرتب کرنی چاہئے تاکہ کورونا کیخلاف منظم اور نئے انداز سے جنگ لڑی جا سکے۔ حکومت کے پاس ابھی وقت ہے کہ وہ کورونا کے نتیجے میں بحران اور طوفان کا اندازا لگا کر حقیقی ذمہ داری پوری کرے۔
جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ وائرس سے کب نجات ملے گی کب معمولات زندگی بحال ہوں گے تو اس کا جواب کوئی بھی دینے کی پوزیشن میں نہیں، ہمیں نت نئے بیانات کے چکر میں پڑنے کے بجائے اس کے تدارک کیلئے ان اقدامات کو یقینی بنانا ہوگا جن سے ہماری اور ہمارے بچوں کی جان بچے ۔ ہمیں جان ہے تو جہان ہے کے فارمولا پر ہی چلنا ہوگا۔ حقیقت یہی ہے کہ کورونا خطرے کی تلوار بن کر ہمارے اوپر لٹک رہا ہے لہٰذا ہمیں الرٹ بھی رہنا ہے اور اس سے بچنے کیلئے وہ سب کچھ بھی کرنا ہے جو دنیا کر رہی ہے۔