بی آئی ایس پی: افسروں کے علاوہ جعلساز کون ؟ تحقیقات ٹھپ

Last Updated On 12 June,2020 10:26 am

لاہور: (فہد شہباز خان ) بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت جعلسازی سے امداد لینے والے 8 لاکھ افراد کیخلاف کسی ادارے میں تحقیقات نہیں ہو رہیں، کروڑوں روپے کے مبینہ مالی بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کے کیس کی تحقیقات میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو مشکلات کا سامنا ہے، سرکاری افسروں اور ان کی بیگمات سمیت 453 ملزموں کیخلاف ایف آئی آر کا اندراج کر دیا گیا ہے۔ 500 کے قریب سرکاری افسروں کے کیسز کا فیصلہ تاحال نہ کیا جاسکا۔

تحقیقات کے دوران اب تک 16 کروڑ روپے سے زائد کی رقم ملزموں سے برآمد کر لی گئی ہے۔ ملزموں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ ایف آئی آرز سندھ، دوسرے نمبر پر بلوچستان کے سرکاری ملازمین کیخلاف درج ہوئی ہیں، فہرست میں تیسرے نمبر پر خیبر پختونخوا جبکہ چوتھے نمبر پر پنجاب کے سرکاری ملازمین ہیں جن کیخلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔

ایف آئی اے ذرائع نے دنیا نیوز کو بتایا کہ سرکاری افسروں کیخلاف تحقیقات میں گریڈ 17 سے گریڈ 22 کے کل 2037 افسر یا ان کی بیگمات شامل ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے آغاز پر ورلڈ بینک کی معاونت سے حق داروں کا تعین کرنے کیلئے ایک سوال نامہ جسے T-1فارم کہا جاتا ہے تیار کیا گیا تھا جس میں سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی مدد سے پورے ملک میں ایک سروے کروایا گیا جس کے بعد امداد لینے والوں کی لسٹ تیار کی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد شکایات کی جانچ کیلئے اس فارم کو مد نظر رکھتے ہوئے نادرا سمیت دوسرے اداروں کی مدد سے تحقیقات کی گئیں تو پتا چلا کہ امداد لینے والوں کی فہرست میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں موجود ہیں کیونکہ کئی ایسے سرکاری ملازمین بھی سامنے آئے جو سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے کے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد بھی وصول کر رہے تھے۔

بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے آنے کے بعد وفاقی کابینہ نے سرکاری ملازمین کیخلاف کارروائی کیلئے معاملہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے سپرد کر دیا، T-1 فارم کے ذریعے لوگوں کا ڈیٹا مرتب کیا گیا جس میں لوگوں کے معیار زندگی سے متعلق مختلف سوالات درج تھے۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 8 لاکھ سے زائد بوگس اور جعلی لوگوں کو جواس پروگرام کے ذریعے سالہا سال سے ہر ماہ امداد لے رہے تھے کو نئے سرے سے مرتب کی گئی لسٹ سے نکال دیا گیا لیکن حیران کن طور پران لوگوں کیخلاف کہیں کوئی تحقیقات نہیں ہورہیں کہ جعلسازی کے نام پر اربوں روپے امداد لینے والے وہ 8 لاکھ لوگ کون تھے اور کیا ان سے جعلسازی کے تحت لی گئی امدادی رقم واپس بھی لی جائے گی یا یہ کارروائی صرف سرکاری ملازمین تک پہنچ کر اختتام پذیر ہوجائے گی۔

سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت اور متعلقہ اداروں کے پاس تمام ریکارڈ موجود ہے کہ وہ بوگس لوگ کون تھے جن کی مدد سے اصل ملزموں کا پتا آسانی سے چلایا جاسکتا ہے لیکن فی الحال حکومت نے کسی بھی تحقیقاتی ایجنسی بشمول نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن یا پولیس کو اس معاملے کی چھان بین کیلئے کوئی ٹاسک نہیں دیا۔

 

Advertisement