لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وفاقی وزیر فواد چودھری کے انٹرویو کو اس حوالے سے حقیقت پسندانہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کھل کر ایشوز پر اظہار خیال کیا ہے اور بتایا ہے کہ کن وجوہات کی بنا پر حکومت ڈلیور نہیں کر پائی اور کون لوگ اس کے ذمہ دار ہیں۔ عوام نے عمران خان کو پورے سسٹم کی اصلاح کیلئے منتخب کیا تھا مگر معلوم نہیں کس نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا کہ کمزور اور ڈکٹیشن لینے والے لوگوں کو لگائیں اور ان کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان خود عمران خان کو پہنچا ہے۔
فواد چودھری کے خیالات اور نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ایک کریڈٹ ان کا ضرور ہے کہ وہ جو دل میں ہوتا ہے اس کا اظہار کر دیتے ہیں اور مصلحتوں کا شکار ہونے کو تیار نہیں ہوتے، خصوصاً یہ کہ وہ ایشوز کو سمجھتے بھی ہیں اور ان پر کھل کر اظہار خیال کرنا بھی چاہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ اپنی وزارت کی تبدیلی کی کوئی پرخاش ان کے دل میں ہو لیکن وہ جن ایشوز کی بات کر رہے ہیں وہ تحریک انصاف کے ذمہ داران اور کارکنوں کو اپیل ضرور کرتے ہوں گے۔ اس امر پر دو آرا نہیں کہ پارٹی شروع سے ہی اندرونی طور پر غیر مستحکم رہی ہے، ایک موقع پر خود وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ہمیں باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے اور اندر سے خطرہ کی بڑی وجہ خود ان کی جماعت کے بعض ذمہ داران ہیں جنہوں نے خود کو وزیراعظم عمران خان کے بعد پارٹی میں اثرو رسوخ کا حامل شخص بنانے کی کوشش کی اور باوجود اس امر کے کہ وزیراعظم عمران خان سب کچھ جانتے تھے خود ان کی شخصیت کے مقابلہ میں یہ دبے رہے لیکن پارٹی میں شروع سے ہی عمران خان کی لیڈرشپ کے ساتھ جہانگیر ترین اور مخدوم شاہ محمود قریشی کی لابنگ رہی اور یہ سلسلہ حکومت کے عمل اور اس کے بعد تک جاری رہا اور آج تک جاری ہے۔
پہلے پہل جہانگیر ترین بہت با اختیار نظر آئے اور لوگ وزیراعظم عمران خان کے بعد انہیں متبادل سمجھتے رہے لیکن مخدوم شاہ محمود قریشی نے پنجاب کی سطح پر گورنر چودھری سرور کو ساتھ ملا کر پنجاب میں بیلنس قائم رکھا اور یہ حقیقت سب کو معلوم تھی جس کا اظہار فواد چودھری نے یہ کہہ کر کر دیا کہ شروع میں جہانگیر ترین کی لابنگ کے سامنے وزیر خزانہ اسد عمر نہ ٹھہر سکے اور انہیں وزارت چھوڑنا پڑی کیونکہ جہانگیر ترین وزیراعظم کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ حکومت کے ٹیک آف نہ کرنے میں بڑی وجہ ہماری معاشی پالیسیاں ہیں اور اس کے ذمہ دار اسد عمر ہیں لہٰذا اسد عمر نے وزارت چھوڑ کر زخمی حیثیت میں جہانگیر ترین سے اپنا بدلا چکانے میں ان کی ہر کمزوری پر ہاتھ رکھا اور انہیں ایکسپوز کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور پھر ادلے کا بدلہ کے مصداق اسد عمر کے ہاتھوں جہانگیر ترین آؤٹ ہو گئے اور اب لندن بیٹھے اپنے زخم چاٹ رہے ہیں، ان کے قریبی حلقے حکومت کو اس نہج پر پہنچانے کا ذمہ دار اسد عمر کو ٹھہراتے نظر آ رہے ہیں۔
فواد چودھری کی جانب سے دئیے جانے والے انٹرویو میں اٹھائے جانے والے نکات کو آج کی صورتحال میں جلتی پر تیل ضرور قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ حکومت کے یہی ایشوز ہیں جس بنا پر حکومت مشکل میں ہے اور جن کی نشاندہی وہ کر رہے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے بھی اسد عمر، رزاق داؤد اور ندیم بابر کی پالیسیوں پر تنقید کی جس پر وزیراعظم عمران خان نے انہیں حوصلہ سے کام لینے کو کہا، محض بیانات اور اعلانات کے گولے چلا کر صورتحال کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا، حکومت کے اندر سے آنے والی خبریں یہی بتا رہی ہیں کہ سب ایک دوسرے کو کارکردگی پر ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصل ذمہ دار وہ ہوتا ہے جو انہیں ذمہ داریاں تجویز کرتا ہے۔ تحریک انصاف کی اندرونی صورتحال میں تنقید اور اختلاف کو اس حد تک خوش آئند ضرور قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہ واحد جماعت ہے جس میں تنقید کی اجازت ہے ورنہ دیگر جماعتوں میں تو یہ روایت بھی نہیں اور تنقید کرنے والوں کا ان جماعتوں کے اندر مستقبل نہیں رہتا۔
دوسری جانب بجٹ اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی بھی اپنی حکومت کے حوالہ سے تحفظات ظاہر کرتے نظر آ رہے ہیں، جب اراکین قومی اسمبلی میڈیا پر آ کر اپنی حکومت پر اپنے تحفظات ظاہر کرتے نظر آئیں تو پھر اس کی کوئی بڑی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ گزشتہ رات ایک چینل پر راجہ ریاض اور خواجہ شیراز محمود کی جانب سے اٹھائے جانے والے نکات خود پی ٹی آئی کی حکومت کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں جو کھلم کھلا یہ اعتراف کرتے نظر آ رہے تھے کہ حکومتی اراکین اسمبلی ہونے کے باوجود انہیں نہیں لگتا کہ وہ حکومت ہیں۔