لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کیخلاف سرگرم نظر آ رہے ہیں اور اس حوالے سے ضروری اقدامات کیلئے انتظامی مشینری پر دباؤ بڑھائے ہوئے ہیں خصوصاً آٹے کی قیمتوں کے حوالے سے انہوں نے اعلان کیا ہے کہ سرکاری گوداموں سے گندم مارکیٹ میں لائی جائے۔ وزیراعظم عمران خان کے اعلانات سے محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہونیوالے اضافہ کا ادراک ہے اور خصوصاً آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کا نوٹس لیتے ہوئے وہ اس حوالے سے متحرک ہیں اور خود کو جوابدہ سمجھتے ہیں کیونکہ حکومت اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانیوالے ایشوز کا مقابلہ کرنے کی تو صلاحیت رکھتی ہے مگر جب روٹی دال کا مسئلہ پیدا ہو اور عوام کا چولہا بجھتا نظر آئے تو منتخب حکومتوں کے ہاتھ پاؤں جلنے لگتے ہیں کیونکہ کوئی بھی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ مسائل زدہ، مہنگائی زدہ عوام بھوک کے ہاتھوں سڑکوں پر آئیں کیونکہ اس کا مقابلہ مشکل ہوتا ہے۔
کورونا کی وجہ سے عالمی سطح پر پٹرولیم کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی ہوئی۔ بجلی کی طلب میں بھی کمی آئی مگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے فائدہ سے بھی عوام محروم ہو گئے اور اگر وزیراعظم عمران خان نے پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی بھی کی تو مافیا نے پٹرول غائب کر کے ان کے اس فیصلہ پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا۔ منافع خوری کیلئے ذخیرہ اندوزی بڑا جرم ہے لیکن دوسری جانب اگر خود حکومتی کردار کا جائزہ لیا جائے تو جن اشیا پر خود حکومتی کنٹرول ہے ان میں عوام کیلئے ریلیف کا بندوبست کیوں نہیں۔ پٹرول، بجلی، گیس، چینی بنیادی ضروریات پر حکومت اور سرمایہ داروں کو اجارہ داری حاصل ہے جس کی وجہ سے بنیادی ضرورت کی حامل اشیا کی قیمتوں کے تعین کا اختیار بھی حکومت کو حاصل ہو گیا ہے اور یہ طبقہ اتنا طاقتور ہو گیا ہے کہ حکومتوں کو اپنا غلام بنا چکا ہے۔
اس حوالے سے حکومتی ناکامی کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ وزیراعظم اور ان کی حکومت ان کے سامنے بے دست و پا نظر آ رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان مسلسل یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ آٹے، چینی اور پٹرول کا بحران پیدا کرنیوالے اپنے انجام سے بچ نہیں سکیں گے لیکن اب ان کے ان بیانات اور اعلانات کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ عملاً اس حوالے سے پیشرفت نظر نہیں آتی۔ الٹا مافیاز دندناتے نظر آتے ہیں۔ حکومت سے مسائل زدہ، مہنگائی زدہ عوام کو بہت سی توقعات تھیں اور خود وزیراعظم عمران خان ان کیلئے ریلیف کے وعدہ پر آئے تھے مگر حقائق یہ ہیں کہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے رجحان نے دراصل مہنگائی کا طوفان برپا کیا۔ پورا ملک اس کی زد میں ہے۔ مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور عملاً اب دیکھنے میں آ رہا ہے کہ وائرس کی وبا اور طرز حکمرانی کی ناکامی نے تمام حکومتی دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے اور عوام کے زخموں پر مرہم کے بجائے الٹا حکومتی ذمہ داران کی جانب سے ہر بات پر یہ کہنا کہ ذمہ دار پرانی حکومتیں ہیں اور ہم آج درست کر رہے ہیں زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
دو سال ہونے کو آئے مگر حکومتی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے مگر کرپشن کرپشن کے نعرے لگا کر عوام کا پیٹ بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور افسوسناک امر یہ ہے کہ اب ان کی ناکامی اور نااہلی کے جواب میں مہنگائی زدہ عوام یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ان سے اچھے تو ماضی کے حکمران تھے جو کچھ کرتے تو نظر آتے تھے۔ ہمارے پاس روزگار تو تھا ہمارا چولہا تو جل رہا تھا اور زیادہ مایوسی انہیں ہوئی جو تحریک انصاف کے تبدیلی کے نعرے پر جھومتے نظر آتے تھے۔ حالات کا رخ اور خصوصاً مہنگائی کا طوفان بتا رہا ہے کہ حکومت کے پاس وقت کم اور غلطی کی گنجائش نہیں۔ اگر اب بھی یہ مہنگائی کے آگے بند نہ باندھ سکے اور ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں کے گرد قانون کا شکنجہ کسانہ کیا گیا۔ آٹا، چینی، دال اور سبزیاں عوام کی پہنچ میں نہ رہیں تو پھر بھوک، ننگ اور غربت کا طوفان حکومت کیلئے پریشان کن ہو سکتا ہے۔ عوام تقاریر بھی سن چکے۔ مہنگائی زدہ عوام کیلئے دال روٹی ممکن نہیں بنتی تو پھر ایسی جمہوریت کیخلاف پریشان حال جمہوریت کے ردعمل کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔