سربرینیکا کی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی نسل کشی کا خدشہ ہے: وزیراعظم عمران خان

Last Updated On 11 July,2020 11:26 pm

اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی اسی طرح نسل کی جا سکتی ہے جس طرح 1995ء میں سربرینیکا میں کی گئی تھی، عالمی برادری نوٹس لے اور اس عمل کو روکے۔

نسل کشی کی 25ویں برسی کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سربرینیکا میں جو نسل کشی کی گئی وہ انہیں اب بھی یاد ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر دھچکا لگا تھا کہ اقوام متحدہ کی محفوظ پناہ گاہوں میں قتل عام کی اجازت کس طرح دی جا سکتی ہے، اب بھی سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ عالمی برادری اس طرح کی چیز کی اجازت کیسے دے سکتی ہے۔

یاد رہے کہ 1995 میں سربرینیکا میں سرب فوجوں نے جنگلات میں میں پیچھا کر کے 8 ہزار افراد کو بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا تھا ان میں سے اکثریت مسلمان مرد و لڑکوں کی تھی۔ اسے یورپ میں جنگ عظیم دوئم کے بعد سب سے بدترین سانحہ قرار دیا جاتا ہے اور اس قتل عام کو نسل کشی قرار دیا گیا تھا۔

وزیراعظم عمران کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ اس قتل عام سے سبق سیکھنا انتہائی اہم ہے، انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سربرینیکا میں مسلمانوں کی نسل کشی، شہدا کو بھولے اور نہ ہی بھولیں گے: اردوان

انہوں نے کہا کہ ہمیں کشمیری عوام کے مسائل نظر آ رہے ہیں، 8 لاکھ فوج نے 80 لاکھ کشمیریوں عوام کا محاصرہ کر رکھا ہے، ہمیں خطرہ ہے کہ وہاں بھی اس طرح کی چیز ہو سکتی ہے۔ عالمی برادری اس کا نوٹس لے اور اس طرح کے قتل عام کو دوبارہ رونما نہ ہونے دے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کی طرف سے میں بوسنیا کے عوام کو اپنا سلام پیش کرتا ہوں اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی وزیر اعظم کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دنیا کی اجتماعی ذمے داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایسا سانحہ دوبارہ رونما نہ ہو۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ کشمیر اور فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ 1995 کے قتل عام سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔

واضح رہے کہ یوگوسلاویا ٹوٹنے کے بعد 1992 میں شروع ہونے والی بوسنیا کی جنگ میں سرب، کروشین اور بقوسنیا کے مسلمان ایک دوسرے سے نبردآزما تھے اور 1995 میں امن معاہدے سے قبل اس تنازع میں ایک لاکھ سے زائد افراد مارے گئے۔

سربرینیکا میں جو کچھ ہوا وہ عالمی برادری کے لیے شرم کا مقام ہے کیونکہ اس علاقے کو 1993 میں اقوام متحدہ نے عوام کے لیے محفوظ مقام قرار دیا تھا۔

جب دو سال بعد بوسنیا کی سرب افواج کو چڑھائی کا موقع ملا تو بوسنیا کے 15ہزار مسلمانوں نے جان بچانے کے لیے جنگلات کا رخ کیا اور اس سے دگنے افراد نے اس امید کے ساتھ سابقہ صنعتی علاقے میں قائم اقوام متحدہ کے رہائشی علاقوں کا رخ کیا کہ نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے امن پسند نمائندے ان کا تحفظ کر سکیں گے۔

لیکن یہ امن کے نمائندے بھی سربیا کی افواج کے سامنے بے بس نظر آئے اور 2ہزار مرد و لڑکوں کو اقوام متحدہ کے ان رہائشی علاقوں سے نکال کر قتل کردیا گیا اور عورتوں اور بچیوں کو بوسنیا کی حکومت کے زیر قبضہ علاقے میں لے گئے۔

ادھر سربرینیکا میں پناہ کے لیے جنگلات کا رخ کرنے والے مسلمانوں کو سرب فوج نے چن چن کر نشانہ بنایا اور بعد میں اس نسل کشی کے ثبوت چھپانے کی بھی کوشش کی گئی اور لاشوں کو بلڈوزر کے ذریعے اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد آنے والے سالوں میں ان لاشوں کو نکالا گیا اور مقتولین کی ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے شناخت کی گئی اور تقریباً ایک ہزار مرنے والوں کی شناخت ہونا اب بھی باقی ہے۔

سربرینیکا میں نسل کشی سمیت دیگر جرائم میں ملوث ہونے پر ہیگ میں اقوام متحدہ کے جنگی جرائم کے خصوصی ٹریبونل نے ان جرائم کی سربراہی کرنے والے سرب فوج کے سربراہ ریڈووان کریڈزک اور کمانڈو ریٹکو ملیڈچ سمیت 50 سے زائد سرب فوجیوں کو 700سال سے زائد قید کی سزا سنائی تھی۔