اسلام آباد: (دنیا نیوز) بھارت کے پانچ اگست کے غیر قانونی اقدام کے بعد پاکستان نے جارحانہ سفارتی کاری کرتے ہوئے کشمیر کا معاملہ تمام عالمی فورمز پر اٹھایا۔
پانچ اگست 2019ء کے دن بھارتی سیاہ کاریوں میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ ہوا جب مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے اپنے ہی آئین روند ڈالا گیا۔ پاکستان نے جارحانہ سفارتکاری کرتے ہوئے اقوام متحدہ، او آئی سی اور عالمی اقتصادی فورم سمیت ساتوں براعظموں میں بھارتی درندگی کو بے نقاب کیا۔
پاکستان نے احتجاجاً بھارتی ہائی کمشنر کو ملک بدر کرنے کیساتھ ساتھ تجارت ختم اور اپنے ہائی کمشنر کو جانے سے روک دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے چین، جرمنی اور امریکا سمیت ہر ملک کے سربراہ سے رابطہ کرکے بھارتی غیر آئینی اقدام سے آگاہ کیا۔
وزیراعظم کی ہدایت پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ناصرف ٹیلی فونک رابطے کیے بلکہ خطوط بھی تحریر کیے۔ سلامتی کونسل کے صدر کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات کا جائزہ لینے کی درخواست کی گئی۔
کئی دہائیوں بعد کشمیر کا تنازع سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر آیا۔ پانچ ماہ بعد سلامتی کونسل کے دوسرے اجلاس میں پھر کشمیر کی صورتحال پر غور کیا گیا۔
27 ستمبر 2019ء کو وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیریوں کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑا۔ پاکستان کی انتھک کوششوں کے باعث امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس اور جنوری میں ورلڈ اکنامک فورم کی سائیڈ لائنز پر کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کو دہرایا۔
پاکستان کی درخواست پر او آئی سے کے کئی اجلاس بلائے گئے اور کشمیر کا معاملہ زیر بحث آیا۔ او آئی سی نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی عالمی تسلیم شدہ حیثیت اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی حمایت کی۔
بیرونی دنیا کیساتھ ساتھ ملک کے اندر بھی ہر جمعہ کو کشمیر ڈے منایا گیا۔ اسلام آباد سے مظفر آباد جانے والی ایک شاہراہ کا نام ‘’سری نگر ہائی وے’’ رکھ دیا گیا۔ پاکستان نے نئے سیاسی نقشہ میں مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیدیا جبکہ اقوام متحدہ سیکرٹری نے دورہ پاکستان میں کشمیر کا معاملہ بھرپور انداز میں اٹھایا گیا۔