لاہور: (دنیا انویسٹی گیشن رپورٹ) وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے شراب لائسنس جاری کرنے کے معاملے پر نیب کوجواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرے خلاف الزامات مفروضوں پر مبنی ہیں۔ رشتے دارسے رشوت لینے جیسے توہین آمیز اور جھوٹے الزامات پر کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے شراب لائسنس کے اجراء کے معاملے پر نیب کو 7 صفحات پر مبنی جواب جمع کروایا ہے جس میں نیب کی جانب سے پوچھے گئے 17 سوالات کے تفصیلی جوابات دئے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کی دستاویزات روزنامہ دنیا نے حاصل کرلی ہیں۔
دستاویزات کے مطابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے موقف اختیار کیا کہ ان پر جھوٹے الزامات کی بنیاد پر مفروضوں پر مبنی 17 سوالات پر مشتمل سوالنامہ تو دیا گیا مگر شکایت کی کاپی نہیں دی گئی جو میرا بنیادی حق ہے۔ شراب لائسنس کے معاملے میں کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا اور نہ ہی اس کے اجراءمیں وزیراعلیٰ ہاؤس کا کوئی کردار ہے، شراب کا لائسنس دینے کا اختیار صرف ڈی جی ایکسائز کے پاس ہے، آج تک شراب کے کل 11 لائسنس جاری ہوئے جن میں سے 9 ڈی جی ایکسائز اور 2 گورنر نے جاری کیے، گورنر نے سال 2000 اور 2001 میں شراب کے لائسنس جاری کیے تھے۔
دستاویزات کے مطابق وزیراعلیٰ نے نیب کو بتایا ہے کہ شراب کا لائسنس دینا قانونی طور پر ڈی جی ایکسائز کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے اپنے جواب میں کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ ڈی جی ایکسائز نے 8 جنوری 2019 کو نئی سمری بھجوائی تھی بلکہ یہ پرانی سمری ہی تھی جو اس سے قبل چیف سیکریٹری کو بھجوائی گئی تھی۔ تاہم دوسری بار یہ سمری بھجواتے ہوئے اس میں کچھ پیرا گراف کا اضافہ کردیا گیا تھا۔ یہ کیس حکومت پنجاب کے رول آف بزنس 2011 کے رول 14 کے تحت نہیں آتا تھا، اس لیے اس میں وزیراعلیٰ کی اجازت کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ مزید یہ کہ 8 جنوری 2019 کو ڈی جی ایکسائز نے سمری بھجوائی جسے سیکریٹری ایکسائز نے 14 جنوری 2019 کو یہی سمری دوبارہ بھجوائی مگر نہ ڈی جی ایکسائز اور نہ سیکریٹری ایکسائز نے آگاہ کیا کہ شراب کے لائسنس کا اجراء 9 جنوری 2019 کو کر دیا گیا ہے۔ لائسنس کا اجراء ہونے کے باوجود چیف سیکریٹری اور ڈی جی ایکسائز نے اس بات کو چھپا لیا تھا۔
وزیراعلیٰ نے نیب کو جمع کرائے گئے جوابات میں بتایا کہ جب پرنسپل سیکریٹری نے دیکھا کہ سمری پہلے چیف سیکریٹری دیکھ چکے ہیں تو انھوں نے یہ سمری واپس چیف سیکرٹری کو بھجوا دی اور چیف سیکریٹری نے اس پر نوٹ لکھا کہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر لائسنس کے اجراء میں احتیاط کے ساتھ تمام قواعد پر عمل کیا جائے۔ 5 مارچ 2019 کو سیکریٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے براہ راست پرنسپل سیکریٹری وزیراعلیٰ کو دوبارہ اس معالے کا نوٹ بھیجا جس پر پرنسپل سیکریٹری نے اس سمری کو غیر ضروری قرار دیدیا۔ یہ نوٹ دراصل وزیراعلیٰ ہاؤس کو مجبور کرنے کی کوشش تھی کہ پہلے سے ہوچکے ایک کام کی منظوری دیدی جائے۔
وزیراعلیٰ کے جواب کے مطابق 5 مارچ 2019 کو سیکریٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے سمری چیف منسٹر کو نہیں بھجوائی، بلکہ پرنسپل سیکریٹری کو ایک نوٹ جاری کیا ،جس میں پیرا 5 میں بتایا گیا کہ ڈی جی ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن کی جانب سے پہلے ہی لائسنس جاری کیا جا چکا ہے۔ پرنسیل سیکریٹری نے اس نوٹ کے پیرا 7 میں یہ لکھ کر اس کو چیف سیکرٹری کے جانب واپس بھیج دیا کہ یہ نوٹ غیر ضروری ہے اور رولزکے تحت اس کی ضرورت نہیں ہے۔ پرنسپل سیکریٹری کی جانب سے لیے جانے والے تمام اقدامات پنجاب حکومت کے رولز آف بزنس کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ لائسنس پہلے ہی 09 جنوری 2019 کو جاری کیا جا چکا تھا، لہٰذا اس نوٹ کو جاری کیے جانے کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ عمل جو 2 مہینے پہلے ہی کیا جا چکا ہے اس پر نوٹ جاری کرنے کا جواز نہ تو قانون میں اور نہ ہی رولز آف بزنس 2011 میں ہے۔
دستاویزات کے مطابق وزیراعلیٰ نے نیب کو دیئے گئے جواب میں کہا کہ ڈی جی ایکسائز کی جانب سے غیر ضروری طور پر وزیراعلیٰ ہاؤس کو نوٹ بھیجنے کے حوالے سے پرنسپل سیکریٹری اور چیف سیکریٹری نے واضح کر دیا تھا۔ اس حوالے سے ڈی جی ایکسائز سے پوچھا جانا چاہئے کہ وہ بار بار وزیراعلیٰ ہاؤس کو سمری کیوں بھجوا رہے تھے۔ وزیراعلیٰ نے اپنے جواب میں کہا کہ یہ سوال اس شخص کے لئے زیادہ موزوں ہوگا جس نے ناجائز سمریاں بنائی تھی اور جسے سینئرز نے ایسا کرنے پر سرزنش کی تھی۔ پرنسپل سیکرٹری کیلئے سمری اور نوٹ بیجھنے کے طریقہ کار کا واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ سوال اس حقیقت کے پیش نظر اپنی مطابقت کھو دیتا ہے کہ اس معاملے میں وزیر اعلیٰ کا کوئی کردار نہیں ہے۔
وزیراعلیٰ نے نیب کو اپنے جواب میں کہا کہ ان کا پرنسپل سیکریٹری ڈاکخانے کا کام نہیں کرتا بلکہ واقعد و ضوابط کے مطابق فیصلہ کرتا ہے کہ وزیراعلیٰ تک کس چیز کا جانا چاہئے، وزیر اعلیٰ کی جانب سے دئے گئے جواب کے مطابق پرنسپل سیکرٹری قانون اور رول آف بزنس کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھاتا ہے اور رول آف بزنس کے مطابق معاملات کی طرف وزیر اعلیٰ کی توجہ دلاتا ہے۔ ان کا دفتر پوسٹ آفس کی حیثیت سے کام نہیں کرتا، بلکہ وہ رول آف بزنس کے تحت تمام معاملات کا جائزہ لے لیتا ہے اور اس کے بعد معلومات یا منظوری کیلئے وزیر اعلیٰ کو بیجھتا ہے۔ اس مخصوص کیس میں معاملے کو قانون اور پالیسی کے مطابق چلانے کے علاوہ دستخط کنندہ کی کوئی ہدایات یا شمولیت نہیں۔
وزیراعلیٰ کی جانب سے جمع کرائے جواب میں کہا گیا ہے کہ قواعد کے مطابق شراب لائسنس کے اجراء میں وزیراعلیٰ کا ہی نہیں بلکہ پرنسپل سیکریٹری اور چیف سیکریٹری کا بھی کوئی کردار نہیں ہے۔ لائنسنس کے اجراء کے لیے شرائط پوری کرنا اور ان کی جانچ پڑتال کرنا ڈی جی ایکسائز کی ذمہ داری ہے۔ انھوں نے اپنے جواب میں کہا کہ متعلقہ قانون یا رولز میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ یا اس کا دفتر لائسنس کے اجراء کے معامالات کو دیکھے گا۔ اسی طرح، چیف منسٹر آفس حقائق کی تصدیق اور لائسنس کی اہلیت کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے لیے موزوں جگہ نہیں، جبکہ قانون کے مطابق اس معاملے میں یہ ذمہ داری ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسشن کے پاس ہے۔
سمری دوبارہ چیف سیکریٹری کو بھجوانے کے حوالے سے دئے گئے جواب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے موقف اختیار کیا کہ مذکورہ خط کا متن یہ ظاہر کرتا ہے کہ جن کیسز میں وزیراعلی کی منظوری یا معلومات کی ضرورت ہوتی ہے وہ رولز آف بزنس کی شق 14 کے مطابق بلاواسطہ وزیراعلیٰ کے دفتر میں جمع کروائی جاتی ہیں۔ البتہ صرف وہ سمریاں جن میں چیف سیکرٹری کی رائے یا رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کے آفس سے ہو کر آتی ہیں۔ رولز آف بزنس کے تحت تمام سمریاں وزیراعلیٰ آفس سے واپس چیف سیکرٹری آفس ہی جاتی ہیں ۔
وزیراعلیٰ کی جانب سے جمع کرائے گئے جوابات کے مطابق 29 مئی 2020 کو شراب کے لائسنس کے حوالے سے خبر شائع ہوئی تو سیکریٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے کمیٹی بنا دی تھی جس نے شراب کا یہ لائسنس منسوخ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں لائسنس ہولڈر لاہور ہائیکورٹ چلا گیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعے لائسنس بحال کر دیا تھا جس کے بعد اس فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت انٹرا کورٹ اپیل میں چلی گئی تھی۔
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے 17 سوالات کے تفصیلی جوابات دئے گئے ہیں اور ان جوابات کے ساتھ تمام ثبوت منسلک کیے گئے ہیں۔