سی سی پی او تنازع کا ڈراپ سین، آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کا تبادلہ کردیا گیا

Published On 08 September,2020 03:40 pm

لاہور: (دنیا نیوز) حکومت نے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کا تبادلہ کر دیا ہے۔ وہ گزشتہ دو سالوں میں تبدیل ہونے والے انسپکٹر جنرل آف پولیس ہیں۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کی تبدیلی کی منظوری دیتے ہوئے صوبے کے نئے انسپکٹر جنرل آف پولیس کیلئے نام طلب کر لئے ہیں۔ نئے آئی جی پنجاب کے ناموں کے لیے محسن بٹ، کلیم امام، اے ڈی خواجہ اور عارف نواز، عامر ذوالفقار اور راؤ سردار کے نام پر غور کیا جا رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ سارا تنازع بغیر مشاورت سی سی پی او لاہور کی تعیناتی پر پیدا ہوا تھا۔ شعیب دستگیر نے جمعہ کو وزیراعظم پاکستان سے سی سی پی او کی تعیناتی پر اعتراض کیا تھا۔ آئی جی پنجاب نے موقف اختیار کیا کہ بغیر مشاورت سی سی پی او لاہور کی تعیناتی قبول نہیں ہے۔ اس پر وزیراعظم نے آئی جی کو وزیراعلیٰ سے ملاقات کی ہدایت کی تھی۔

ذرائع کے مطابق آئی جی کیساتھ ون آن ون ملاقات میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار مصالحت کی کوشش کرتے رہے۔ تاہم اس کے بعد بھی آئی جی پنجاب دفتر بھی نہیں آئے۔ جس کے باعث دو روز تک آئی جی آفس پنجاب میں کام بند رہا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے سٹی چیف پولیس افسر (سی سی پی او) عمر شیخ اور آئی جی شعیب دستگیر کے درمیان تنازع کے بعد شعیب دستگیر کی تبدیلی پر غور شروع کر دیا گیا تھا۔

دوسری جانب سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے آئی جی پنجاب سے اختلافات کی تردید کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ شعیب دستگیر میرے سینئر افسر اور کمانڈر ہیں۔ پولیس فورس میں ڈسپلن کیلئے جی پی ایس لوکیشن مانگی ہے۔ آئی جی مجھے لوکیشن کا کہیں گے تو میں ضرور دوں گا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل ڈاکٹر کلیم امام صرف تین ماہ آئی جی 13 جون 2018ء سے 11 ستمبر 2018، محمد طاہر 11 ستمبر 2018ء سے 15 اکتوبر 2018ء امجد جاوید سلیمی 15 اکتوبر 2018ء سے 17 اپریل 2019ء، کیپٹن (ر) عارف نواز خان 17 اپریل 2019ء سے 28 نومبر 2019ء آئی جی پنجاب رہے۔ شعیب دستگیر پانچویں آئی جی پنجاب تھے جو 28 نومبر 2019ء کو تعینات ہوئے۔


آئی جی پنجاب سے ملاقات ہوئی، معاملہ آج حل ہو جائے گا:وزیراعلیٰ عثمان بزدار

دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی آئی جی پنجاب سے ملاقات ہوئی، معاملہ آج حل ہو جائے گا، سب کی سفارش کرتا ہوں، کوئی فیورٹ نہیں ہے۔

آئی جی پنجاب کے آفس نہ آنے کے سوال پر عثمان بزدار کا کہنا تھا کام چل رہا ہے، میں نے کسی افسر کا بیان نہیں دیکھا، آئی جی یا سی سی پی او کا کوئی بیان میری نظر سے نہیں گزرا۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلی حکومتوں میں لوگ ذاتی کام کرتے تھے، اسی لیے پانچ سال پورے کر لیتے تھے۔ موجودہ حکومت میں جو کام نہیں کرتا، اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ صرف پانچ نہیں، 500 تبدیلیاں بھی کرنا پڑیں تو کرینگے۔

ادھر سابق آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کا بیان بھی سامنے آ گیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے بیان پر وزیراعلیٰ پنجاب کو آگاہ کیا تھا۔ انہوں نے کمانڈر کے خلاف بات کرکے رولز کی خلاف ورزی کی۔ قانون کے مطابق کارروائی ہوتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔