کراچی (دنیا نیوز) کراچی کے علاقے شاہ فیصل میں نامعلوم افراد کی گاڑی پر فائرنگ سے جامعہ فاروقیہ کےمہتمم مولانا عادل خان ڈرائیور سمیت جاں بحق ہوگئے۔
اسپتال ذرائع کے مطابق، اسپتال پہنچنے سے قبل مولانا عادل دم توڑ چکے تھے، انہیں گردن اور پیٹ میں گولیاں لگیں۔
دوسری طرف شاہ فیصل کالونی میں مولانا عادل پر فائرنگ واقعے کی سی سی ٹی وی دنیانیوز نے حاصل کرلی، فوٹیج میں ملزمان کو فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، قاتلوں نے اطمینان سے کارروائی کی اورسڑک پار کرکے فرار ہوگئے، حملہ آور پیدل چل کر آیا اور گاڑی پر گولیاں برسائیں، فوٹیج میں حملہ آور کو گولیاں مار کر پیدل سڑک پارکرتے دیکھا جاسکتاہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ نے فائرنگ کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ کو ملزمان کی جلد گرفتاری کی ہدایت کردی ہے۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ شرپسند عناصر شہر کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں، مولانا عادل کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان کون تھے؟
مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان کی عمر 63 سال تھی اور وہ عالم اسلام کی معروف علمی شخصیت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان مرحوم کے بڑے صاحبزادے تھے۔
1973 میں دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ سے ہی سند فراغت حاصل کی، کراچی یونیورسٹی سے 1976 میں بی اے ہیومن سائنس، 1978 میں ایم اے عربی اور 1992 میں اسلامک کلچر میں پی ایچ ڈی کی۔
وہ 1980( اردو، انگلشن اور عربی ) میں چھپنے والے رسالے الفاروق کے تاحال ایڈیٹر رہے جب کہ تحریک سواد اعظم میں اپنے والد محترم مولانا سلیم اللہ خان کے شانہ بشانہ رہے۔
1986سے 2010 تک جامعہ فاروقیہ کراچی کے سیکرٹری جنرل رہے اور اسی دوران آپ نے اپنے والد سے مل کر جامعہ کے بہت سے تعلیمی وتعمیری منصوبوں کی تکمیل کی۔ پھر کچھ عرصہ امریکا میں مقیم رہے جہاں ایک بڑا اسلامی سینٹرقائم کیا۔
کوالالمپور کی مشہور یونیورسٹی میں 2010 سے 2018 تک کلیہ معارف الوحی اور انسانی علوم میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیں۔
2018 ریسرچ وتصنیف وتحقیق میں ملائیشیا کی ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے فائیو اسٹار رینکنگ ایوارڈ سے نوازا گیا، یہ ایوارڈ آپ کو ملائیشین صدر کے ہاتھوں دیا گیا۔
وفاق المدارس، المدارس العرابیہ کے مرکزی کمیٹی کے سینیئر رکن اور وفاق المدارس کی مالیات نصابی اور دستوری کمیٹی جیسی بہت سی اہم کمیٹیوں کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔
مولانا ڈاکٹر عادل خان کو اردو، انگلش اور عربی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا، وہ بہترین معلم، خطیب اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ علوم القرآن، علوم الحدیث، تعارف اسلام، اسلامی دنیا، اسلامی معاشیات، اخلاقیات، فقہی مسائل، آیات احکام القرآن اور احکام فی الاحادیث، مقاصد شریعہ، تاریخ اسلام، خاص کر تاریخِ پاکستان اور اردو اور عربی ادب جیسے موضوعات پر دلچسپی رکھتے تھے۔
پسماندگان میں مولانا مفتی محمد انس عادل، مولانا عمیر، مولانا زبیر، مولانا حسن، ایک بیٹی اور ایک بیوہ جب کہ دو بھائی مولانا عبیداللہ خالد اور عبدالرحمن کو سوگوار چھوڑا ہے۔
دو بیٹے مولانا زبیر اور مولانا حسن اور ایک بیٹی ملائیشیا میں مقیم ہیں۔ مولانا عادل 2017 میں والد مولانا سلیم اللہ خان کے انتقال کے بعد پاکستان واپس آئے، دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ کی دونوں شاخوں کا نظم ونسخ سنبھالا اور شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز ہوئے۔
بعدازاں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل اپنے بھائی مولانا عبیداللہ خالد کے حوالے کرکے اپنی تمام تر توجہ جامعہ فاروقیہ حب چوکی پر مرکوز کی جس کو وہ ایک جدید خالص عربی پر مبنی تعلیمی ادارہ اور یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے، آپ جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کے سرپرست اور جامعہ فاروقیہ حب چوکی کے مہتمم تھے۔