اسلام آباد : (ویب ڈیسک) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خواجہ سراؤں کی اسلامی تعلیم کے لیے مدرسے کا آغاز کردیا گیا۔
ڈپٹی کمشنرحمزہ شفقات نے ٹرانس جينڈر کميونٹی کے لئے اسلام آباد ميں اسلامی تعليم اور مدرسے کے آغاز کی تقریب میں شرکت کی۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے ٹرانس جينڈر کميونٹی کے لئے اسلام آباد انتظاميہ کے دفتر ميں بھی ملازمت کا اعلان کر ديا۔
ٹرانس جينڈر کميونٹی کے لئے اسلام آباد ميں اسلامی تعليم اور مدرسے کا آغاز۔ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات کا ٹرانس جينڈر کميونٹی کی تقريب ميں شرکت ۔اسلام آباد انتظاميہ کے دفتر ميں نوکری کا اعلان کر ديا کمبل اور رضائیاں بھی تقسيم کی۔ @hamzashafqaat @dcislamabad @Ayab_Ahmed pic.twitter.com/A8kWbqgz1w
— Javeria Siddique (@javerias) December 12, 2020
حمزہ شفقات نے کميونٹی ميں درِ انسانيت این جی او کے تعاون سے کمبل اور رضائیاں بھی تقسيم کیں۔ ٹرانس جينڈر کميونٹی کے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو اُن کے لیے احسن اقدام کر پر خراجِ تحسين پیش کیا۔
خواجہ سراؤں کے بارے میں عام تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ اپنا گزر بسر کرنے کے لیے یا تو بھیک مانگتے نظر آتے ہیں یا پھر شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ڈانس کرتے ہیں لیکن اسلام آباد کی رہائشی خواجہ سرا رانی خان نے ثابت کر دکھا یا کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اور انہوں نے تمام غیر قانونی اور معاشرے میں برے سمجھے جانے والے دھندے چھوڑ کر اپنی کمیونٹی کے افراد کو قرآن پاک کی تعلیم سے آراستہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے رانی خان نے بتایا کہ میں 20 سال تک ڈانس کرتی رہی ہوں، پہلے خواجہ سراؤں کی گرو تھی لیکن جب سے مدرسہ کھولا ہے تو اب میرے ساتھی مجھے باجی، استانی اور آپا کہتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا 12 سے 13 برس کی عمر میں گھر سے نکل جاتے ہیں، ہر جگہ مسجد اور مدرسہ موجود ہے جہاں بچے قرآن پاک پڑھنے آتے ہیں لیکن خواجہ سرا کمیونٹی کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جب وہ بچوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو انہیں مختلف قسم کے القابات سے پکارا جاتا ہے جس سے ان کی سوچ تبدیل ہو جاتی ہے اور دینی و دنیاوی تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔
رانی خان نے مزید بتایا کہ میں نے 20 سال کی کمائی جمع کی اور پھر مدرسہ کھولا، اب میں نے بھیک مانگنا اور ڈانسنگ چھوڑ دی ہے، سیکس ورک تو میں نے بہت پہلے چھوڑ دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں بار بار اللہ سے التجا کرتی رہی ہوں اور بار بار معافیاں مانگتی رہی ہوں، مجھے کسی گرو نے نہیں کہا کہ آؤ ہم آپ کو پڑھاتے ہیں، میں نے خود سے پڑھا۔
خواجہ سرا رانی خان کا کہنا تھا میں اپنی کمیونٹی کے دیگر افراد کے پاس گئی اور انہیں قرآن پڑھنے کی دعوت دی، پھر انہیں ہم نے اپنی طرف سے کھانا دینا شروع کیا، اب ہم 10 خواجہ سراؤں کو اپنی جیب سے کھانا، میڈیکل اور ان کے گھر کا کرایہ دے رہے ہیں ۔
رانی خان کا کہنا تھا خواجہ سراؤں کو سمجھانا تھوڑا مشکل تھا لیکن اب ان کا رجحان اس طرف ہو چکا ہے اور آگے انہیں دنیا کی تعلیم کی طرف راغب کرنا ہے، اگر میں خواجہ سرا ہو کر یہ سب کچھ چھوڑ سکتی ہوں تو باقی لوگ کیوں نہیں چھوڑ سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے مدرسہ کھولا کیونکہ میں خود خواجہ سرا ہوں، مجھ سے پڑھنے میں انہیں کسی قسم کا مسئلہ درپیش نہیں ہو گا، میں سمجھتی ہوں کہ ایک خواجہ سرا دوسرے خواجہ کو بہتر طریقے سمجھ سکتا ہے۔
یاد رہے کہ بنگلا دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں بھی خواجہ سراؤں کی دینی تعلیم کے مدرسے کا قیام کیا گیا تھا جسے اسلامی دنیا میں اس طبقے کے لیے قائم کی جانے والی پہلی دینی درس گاہ قرار دیا گیا تھا۔