لاہور: (دنیا نیوز) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے سی سی پی او لاہور پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عمر شیخ کے تمام انٹرویوز کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائیکورٹ میں شہری کو سی سی پی او لاہور کی جانب سے ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے سی سی پی او لاہور پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ سی سی پی او کہتے کہ پولیس ملزم پکڑتی ہے اور عدالتیں ضمانتیں لے لیتی ہیں، یہ بیان توہین عدالت کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس قاسم خان نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو سی سی پی او کے تمام انٹرویوز کا جائزہ لینے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ جہاں جہاں توہین عدالت ہوئی ایڈووکیٹ جنرل درخواستیں دائر کریں۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ سی سی پی او کو پتہ ہے کہ عدلیہ نے خاموش رہنا ہے، اس لیے یہ جو چاہتے ہیں انٹرویو دے دیتے ہیں، عدلیہ بارے ایک بھی توہین آمیز لفظ برداشت نہیں کریں گے، گالیاں کھانے نہیں بیٹھے۔ چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دئیے کہ پولیس افسر خواہ وہ کسی بڑے کی کٹھ پتلی ہی کیوں نہ ہو، عدالت کے خلاف نہیں بول سکتا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سرکاری وکیل سے کہا کہ سی سی پی او کو کہہ دیں جو کہتا ہے کہ عدالتیں ضمانتیں لے لیتی ہیں، اُس افسر کے کان میں ڈال دیں، عدالتیں پولیس کے ماتحت نہیں، قانون کے مطابق ضمانت لیتی ہیں، پولیس کی اپنی نالائقی ہے کہ ملزم بری ہو جاتے ہیں اور ذمہ داری عدالتوں پر ڈال دی جاتی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دئیے کہ سی سی پی او تو کہتے تھے تین ماہ میں سب ٹھیک ہو جائے گا، کچھ ٹھیک نہیں ہوا، ڈکیتیوں اور چوریوں میں اضافہ ہوا۔ عدالت نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سی سی پی او لاہور اور ڈپٹی کمشنر سے 15 روز میں جواب طلب کرلیا۔