اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے متعلق صدارتی ریفرنس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہو گی یا نہیں، کچھ نہیں کہہ سکتے، آرٹیکل 59 میں خفیہ ووٹنگ کا کوئی ذکر نہیں، آرٹیکل 63 اے کا اطلاق سینیٹ الیکشن پر نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کی ہدایت پر الیکشن کمیشن نے سینیٹ ووٹرز کا ہدایت نامہ پیش کیا۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے اٹارنی جنرل کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہدایت نامہ میں متناسب نمائندگی اور خفیہ ووٹنگ کا ذکر ہے، اراکین اسمبلی اپنی پارٹی کے نظم ضبط کے پابند ہیں، خلاف ورزی پر کارروائی ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کارروائی سے متعلق پوچھا تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سزا صرف ووٹوں کی خرید و فروخت پر ہوسکتی ہے، نااہلی بھی ہوسکتی ہے تاہم سزا کوئی نہیں۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کا اطلاق سینٹ انتحابات پر نہیں ہوتا اور آرٹیکل 59 میں خفیہ ووٹنگ کا کوئی ذکر نہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے آصف زردری کے دس نشستیں جیتنے کے بیان کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ عمومی گفتگو تو ہوتی رہے گی، قانون کی بات کریں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزرائے اعلی کے علاوہ ہر الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا خفیہ رائے شماری میں متناسب نمائندگی نہ ہوئی تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈوکیٹ جنرل سندھ سلطان طالب الدین نے دلائل دیئے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ کا سب نے سنا ہے، شواہد کسی کے پاس نہیں، عدالت کو سیاسی سوالات سے دور رہنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئین بذات خود بھی ایک سیاسی دستاویز ہے، آئینی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کر رہی ہوتی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہونے کا سوال اٹھایا تو چیف جسٹس نے کہا کہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوگی یا نہیں کچھ نہیں کہہ سکتے، افسوس ہے پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے ہی معاہدے سے پھر گئے، میثاق جمہوریت میں خفیہ طریقے کار کو ختم کرنے کا معاہدہ کیا لیکن دونوں پارٹیاں اب اس پرعمل نہیں کر رہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے الیکشن کمیشن کے ترمیم کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کیے بغیر وفاقی حکومت کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی۔ چیف جسٹس نے شکریہ کے ساتھ جانے کا کہا تو ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ دلائل ابھی مکمل نہیں ہوئے تاہم چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان کو روسٹرم پر بلالیا۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی اٹارنی جنرل کے دلائل اپنائے۔ عدالت نے سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کر دی۔